پیر‘ 4 جمادی الثانی‘ 1445ھ ‘ 18 دسمبر 2023ء
شاہد خاقان عباسی کا نون لیگ چھوڑنے کا فیصلہ، نہیں چھوڑ رہا، تردید کر دی ، انہوں نے چھوڑی تو میں بھی چھوڑ دونگا، مفتاح اسمٰعیل
گزشتہ سے پیوستہ روز ہفتے کو ریگولر میڈیا پر پورا دن ’’شاہد خاقان عباسی کا مسلم لیگ ن چھوڑنے کا فیصلہ۔‘‘ کی گردان ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا نے، نرم گرم، تلخ و شیریں مصالحے لگا کر تبصروں کی لے اٹھانا ہی تھی۔ بالآخر شاہد خاقان عباسی کی تردید آ گئی کہ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا وہ اس طرح کی واہیات افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں۔ مگر دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہو، کچھ جل رہا ہو، سلگ رہا ہو۔ ادھریہ افواہ سامنے آئی اْدھر اس پر تبصرے ہونے لگے، اکثر نے ان سے پوچھنے کی زحمت نہ کی۔ کیوں؟ اس لئے کہ انکے بیانات اس طرح کے آ رہے تھے کہ ن لیگ سے اب گئے کہ تب۔ یہ افواہ اُڑی تو ان کے کنڈکٹ کے گواہ فوراً اس پر ایمان لے آئے اور تو اور مفتاح اسمعٰیل جو خود اور دوستوں کو بھی اشاروں کنایوں میں یہ کہتے ہیں’’ دنیا نوںکہہ دیواں ن لیگ توں پَرے پَرے۔‘‘ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو، نہ تصدیق کی یکدم کھینچا مارا، اگر وہ ن لیگ کو چھوڑتے ہیں تو میں بھی، لطیف خان کھوسہ پارٹی کی نظروں میں پارٹی موقف سے اِدھراُدھر ہوئے تو ان کو شوکاز نوٹس دے کر ’’پارٹی نکالا‘‘بھی دیدیا۔ مفتاح کم، عباسی صاحب زیادہ پارٹی لیڈر شپ کے بخیے ادھیڑتے نظر آ رہے ہیں۔ کئی لیگی لیڈر ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ مفتاح اور عباسی مصطفی نواز کھوکھر کیساتھ امیجی نیشن پاکستان تنظیم تحریک یا پارٹی بھی تشکیل دے چکے ہیں۔ بقول شخصے خود ہی پارٹی چھوڑنے کی خبر اُڑوا دی۔ عباسی صاحب جس حد تک جا چکے ہیں، جس طرح پارٹی قائدین پر تنقید اور پارٹی کے حریفوں کی توصیف کرتے ہیں اس سے لگتا ہے انکو پارٹی نے کوئی زیادہ ہی گھائو لگا دیا ہے ورنہ تو ان کو معلوم ہے موج سے دریا میں اور…-پارٹی چھوڑتے ہیں تو نثار اور ہاشمی کلب کا حصہ بن جائیں گے۔بادی النظر میںرویہ تو ان کا بھی ایسا ہے ہی جیسا دانیال عزیز کا تھا کہ کرلو جو کرنا ہے، نہیں دیتا شوکاز نوٹس کا جواب مگر اب" تھوکوڑی " کہہ کر مقررہ وقت گزرنے کے بعد جواب جمع کرا دیا ہے۔
٭٭٭٭٭
عوامی مقامات پر مفت انٹرنیٹ دینے کا اعلان
آپ اس وقت کسی پارک یا دوسرے پبلک مقام پر ہیں تو ابھی موبائل نکالیں، فری انٹرنیٹ استعمال کریں مگر اس کے لئے آپ کا ابوظہبی میں ہونا ضروری ہے۔ یہ ابوظہبی والوں کے لئے سہولت فراہم کی گئی ہے جن کو اسکی خاص ضرورت نہیں ۔ ہمارے لیے یہ سہولت پْرکشش اور دلکش ہو سکتی ہے مگر یہ کوئی حسرت ناتمام بھی نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کو ایسی مراعات کا میسر ہونا ایک معمول ہے مگر پاکستان میں بھی ایسا ہو تو کیا کہنے، کمال نہ ہو جائے۔مفت کا تو الزام بھی قبول۔ یہ کمال جنابِ عالی! ہو چکا ہے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تو پارکوں میں انٹرنیٹ فری فراہم کیا گیا تھا۔ شہباز شریف کی حکومت گئی تو یہ سہولت بھی آئی گئی ہو گئی۔ شہباز دور میں دو روپے کی روٹی بڑا کارنامہ تھا جس پر ماس خوروں نے ڈرون گرا دیا۔ اتوار بازار تو خیر کورونا کی نذر ہوگئے۔ ان پر بدستور کورونا طاری ہے۔ نئے آنے والوں کو پیشرو حکمرانوں کے کام اور منصوبے جِن بھوت نظر آتے ہیں، جِن چمٹنے کے خوف سے ان سے دور بھاگتے ہیں۔ 2008ء میں آنے والوں کو 1122 نرا خرچہ اور وارڈن زہر لگتے تھے۔ اسی طرح صحت کارڈ آنے والوں کی صحت خراب کرگیا، قیام و طعام گاہیں عقوبت خانے نظر آنے لگے کہ بند کرتے ہی بنی۔ ہرچہ آمد عمارت نو ساخت، اس کے بعد آنے والے اس پر رنگ و روغن کرتے رہیں تو گلاب دیوی گنگا رام کی طرح صدا انسانیت کی خدمت چلتی رہتی ہے۔ بڑی نصیحت ہو گئی۔ اب ذرا فری وائی فائی لگا لیں مگر پہلے ابوظہبی چلیں۔ دبئی چلو کبھی خواب ہوتا تھا مگر اب آسان ہے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان رہنے کے قابل نہیں رہا، ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عائشہ عمر
عائشہ عمر ماڈل ہیں اور دنوں میں شہرت کی بلندیوں کو چْھو چکی ہیں۔ ان کو شکوہ ہے کہ سیاستدانوں نے ملک کی حالت بدتر کر دی ہے۔ ان کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ساتھ ڈکیتی کی دو بار کوشش کی گئی۔ اس لئے مایوس ہو کر پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔ عائشہ عمر کی ملک چھوڑنا مجبوری ہو سکتی۔ وہ ڈنمارک جانا چاہتی ہیں، وہاں ان کے بھائی موجود ہیں۔ گلیمر میں اوج کیلئے بظاہر نہیں جارہیں۔ ہمارے ہاں عموماً یہ ہوتا ہے کہ جن کو پاکستانی عزت دیتے ہیں، شہرت کے آسمان پر پہنچاتے ہیں،ان میں سے کئی اپنی اوقات اور ذات بھلا کرآسمان سے چھلانگ لگا کر زمین کی پستی میں گر جاتے ہیں۔ ان کو بھارت پاکستان سرحد بس ایک لکیر نظر آتی ہے۔ ’’شاعری، ثقافت ادب اور فن کی کوئی حد اور سرحد نہیں ہوتی‘‘ یہ کہتے ہیں ویزہ لیتے ہیں ہندوستان چلے جاتے ہیں۔ وہاں مستقل شہرت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اْدھر بھی اسی قبیل کے مہاشے ،چنڈیل ،چنڈال اورچماٹ قسم کے نمونے بستے ہیں۔ وہ ان کو، کن کو؟ وہی کھلاڑی ، فنکار اور ادب سے وابستہ لوگ جنہیں ہندوستان امن کاگہوارہ نظر آتا ہے۔دھرتی ماتا دِکھتی ہے، دولت ان کے چرنوں میں نچھاور ہوا چاہتی ہے ۔ شہرت نویں دسویں آسمان پر تصوراتی آنکھ سے نظر آنے لگتی ہے۔
ہم کیا دیکھتے ہیں، دور کے ڈھول قریب آتے ہیں تو کانوں کی کھڑکیاں کھول کر پردہ پھاڑنے لگتے ہیں۔ چند دن کی مہمان نوازی پھر بیزاری اور بیزاری آگے بڑھتی ہے، تبرے شروع ہو جاتے ہیں۔ چند قدم اور آگے چلیں تو منہ کالا کر دیا جاتا ہے۔ جاتے ہی پھول برسائے گئے تھے پھر جوتے برسائے جانے لگتے ہیں۔ ہور چوپو، "سرخرو "ہو کر نیویں نیویں نظریں چرا کر گردن جھکا کرنکل آتے ہیں۔ بنیے کو تو شاہ رْخ ، سلمان خان، عامر خان جیسے بھی گوارہ نہیں جو آدھے ہندو ہوچکے ہیں۔کئی مسلمان فلم سٹار قبولیت حاصل کرنے کے لئے اپنا نام ہندئوں والا رکھ لیتے تھے،ان کی کھمب اور مکو اس وقت ٹھپا گیا جب شدت پسندوں نے کہا۔ ایسے نام والوں کو مرنے کے بعد دفنایا نہیں جلایا جائیگا۔
٭٭٭٭٭
سری ناتھ نے گوتم گھمبیر کو جھگڑالو کھلاڑی قرار دیدیا
سری ناتھ نے گوتم کو مسٹر فائٹر قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے ہی کھلاڑیوں سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ اچھا! اگر وہ ان کھلاڑیوں سے لڑیں جو اپنے نہیں ہیں تو مسٹر پیس ہونگے؟ کرکٹ میں کھلاڑی آپس میں نہ لڑپڑتے ہیں اور ہاں لڑائی کیلئے فریق ثانی کا ہونا اولین شرط ہے ورنہ تو لڑائی ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک ٹیم کے کھلاڑی دوسری ٹیم کے کھلاڑی سے الجھ پڑتے ہیں۔ کرکٹ کے میدان کے اندر اور باہر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کبھی نہیں لڑتے تو ایمپائر نہیں لڑتے۔ ایمپائر کیساتھ کھلاڑی الجھ پڑتے ہیں۔ مائیک گیٹنگ اور شکور رانا کی لڑائی بڑی مشہور ہوئی تھی۔ یہ سری ناتھ ہیں ایک انڈین کرکٹر سری کانت بھی ہو گزرے ہیں وہ پاکستان آئے۔ ان کو ایمپائر نے ون ڈے میچ میں آئوٹ دیدیا وہ سر ہلاتے بیٹ پٹخاتے، کچھ بڑبڑاتے پویلین لوٹ لئے۔ عمران خان کیپٹن تھے۔ انہوں نے سری کانت کو واپس بلا کر کریز پر کھڑا کر دیا۔ اگلی بال پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ ہو گئے۔ بہرحال جھگڑا پیدا ہونے سے پہلے ختم کر دیا گیا تھا۔ ویسے لڑائیاں کوئی ہمارے کرکٹر سے سیکھے۔ ایک دوسرے پر فکسنگ جوئے، نشہ کے الزامات خم ٹھونک کر لگاتے ہیں۔گزشہ دنوں سلمان بٹ جن کو کچھ ’’بدخواہ‘‘ فکسر کہتے ہیں۔ ان کو چیف سلیکٹر وہاب ریاض کی طرف سے مشیر مقرر کیاگیا تو رولا پڑ گیا اور یہ فیصلہ واپس لینا پڑا، وہاب ریاض کی چار گھی میں انگوٹھا شہد میں ہے۔ چیف سلیکٹر ہیں، وزیر کھیل ہیں۔ پشاور زلمی ٹیم کا حصہ ہیں، کبھی اس کے کیپٹن ہوا کرتے ہیں۔ یہ بابر ا جنعظم کو قومی ٹیم میں سلیکٹ کرتے ہیں۔ زلمی میں ان کی کپتانی میں کھیلتے ہیں۔ چھ چھکوں کے مقامی ریکارڈ یافتہ ہیں۔ نامور فاسٹ بالر رہے ہیں۔ رہے نہیں بلکہ ہیں۔