محسن سپیڈ سے مصنوعی بارش تک
نگران وزیر اعلی پنجاب سید محسن نقوی آنے والے حکمرانوں کیلئے مشکلات کھڑی کرکے جا رہے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کام کرنے کا رواج نہیں اور ویڑن تو بالکل نہیں۔ سید محسن نقوی نے عوامی خدمت کے جو معیار متعارف کروا دیے ہیں عوام آنے والوں سے توقع کریں گے کہ اس سے بہتر نہیں تو کم ازکم ان ہی رحجانات کو برقرار رکھا جائے لیکن یہ مشکل کام ہے۔ اس کیلئے نہ صرف دن رات ایک کرنا پڑتا ہے بلکہ اس کیلئے جوش جذبہ، عقل عمل اور بروقت درست فیصلہ کرنے کی اہلیت اور قوت ہونی چاہیے۔ محسن سپیڈ کا تو چرچا تھا ہی لیکن وزیر اعلی پنجاب نے لاہور شہر میں پہلی بار مصنوعی بارش کروا کر انسانی زندگیوں پر احسان کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی انسانی زندگی پر ماحول کے اثرات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ مہذب معاشروں میں انسانی زندگی پر رونما ہونے والے اثرات کو نہ صرف مانیٹر کیا جاتا ہے بلکہ مضر اثرات سے بچاو¿ کیلئے ریسرچ کی جاتی ہے اور بچاو¿ کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے سردیوں میں لاہور سموگ کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ عدالتی نوٹس کے باوجود حکومتیں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کر پائیں جس کی وجہ سے لاہور اکثروبیشتر آلودگی میں دنیا کے گندے ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہتا ہے۔ لاہوریئے آلودہ آکسیجن پر زندہ رہنے پر مجبور ہیں ہمارے ہسپتال سیزنل بیماریوں کی وجہ سے بھرے رہتے ہیں آلودگی کے باعث مضر اجزا ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر کینسر کا باعث بن رہے ہیں۔ کھانسی نزلہ زکام خارش جیسی بیماریاں عام ہیں۔ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہماری سوچ کبھی بیماریوں کی روک تھام کی طرف نہیں جاتی کہ کن عوامل کے باعث بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ہم ہسپتالوں میں توسیع کرتے جا رہے ہیں لیکن کبھی بیماریوں کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
لاہور میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو گا جس گھر میں دوائی نہیں جاتی نگران وزیر اعلی نے پہلی بار آلودگی کو کم کرنے کیلئے جہاں دیگر اقدامات کیے وہیں انھوں نے سموگ کو کم کرنے کیلئے مصنوعی بارش کا تجربہ بھی کروایا جو کہ بہت کامیاب رہا۔ متحدہ عرب امارات کے تعاون سے مصنوعی بارش برسانے کیلئے ان کی ٹیم ڈیڑھ ہفتہ سے لاہور میں مقیم تھی اور مناسب وقت کے انتظار میں تھی۔ جونہی ہلکے سے بادل اکٹھے ہوئے انھوں نے جہاز کے ذریعے بادلوں پر نمک پاشی کرکے لاہور اور مریدکے کے علاقے میں مصنوعی بارش کا کامیاب تجربہ کیا۔ (ویسے ہم تو زخموں پر نمک پاشی کرکے تکلیف میں اضافہ کے محاورے ہی سنتے رہے ہیں )یہ بادلوں پر نمک پاشی سے بارش والا معاملہ تو بہت خوش کن ہے۔ جس روز بارش کا تجربہ کیا گیا اس روز بھی لاہور آلودگی میں نمبر ون تھا لیکن مصنوعی بارش کے بعد لاہور چھٹے نمبر پر آگیا۔ اسکے انسانی صحت پر کتنے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں آپ تصور نہیں کر سکتے۔
بحث یہ کی جا رہی ہے کہ اس مصنوعی بارش پر 35 کروڑ خرچہ آیا ہے۔ اول تو اس پر کوئی خرچ نہیں ہوا یہ متحدہ عرب امارات نے دوستی میں کیا ہے ساتھ ہی انکی مہارت عالمی سطح پر تسلیم ہو گئی ہے۔ لیکن اگر 35 کروڑ کی لاگت سے یہ مصنوعی بارش کروائی بھی جاتی تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔ ہمیں فوری ریلیف کیلئے ایسے اقدامات کرتے رہنا چاہئیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں مستقل حل کیلئے لانک ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہم شہر کو توسیع دیتے جا رہے ہیں اگر ہم نے صحت صفائی اور ماحول پر توجہ نہ دی تو یہ شہر رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔
ہمیں فوری طور پر رہائشی علاقوں سے انڈسٹری کو باہر شفٹ کر دینا چاہیے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگا دینی چاہیے، زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنی چاہیے، ماحول دوست درخت لگائے جائیں، زیبائشی پودوں کی بجائے آلودگی سے بچانے والے درخت لگائے جائیں، نئی عمارتوں کی تعمیر میں گرین ایریا لازمی قرار دیا جائے، شہریوں کو آلودگی نہ پھیلانے کا شعور دیا جائے، آلودگی کے دنوں میں مصنوعی بارش سمیت درختوں اور سڑکوں پر چھڑکاو¿ کیا جائے۔ وزیر اعلی پنجاب سید محسن نقوی نے ایک اور بڑا اہم انیشٹیو لیا ہے جس کے تحت شہر سے تجاوزات کے خاتمے کیلئے آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ آدھے سے زائد مسائل کی جڑ تجاوزات ہیں۔ پہلے وارننگ دی گئی کہ آج 19 دسمبر تک ازخود تجاوزات ختم کر لیں ورنہ گرا دی جائیں گی۔ کل سے اس حوالے سے گرینڈ آپریشن شروع ہو رہا ہے۔ تجاوزات کے حوالے سے تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن لارڈ میئر میاں اظہر کے دور میں ہوا تھا انھوں نے قیام پاکستان کے وقت کے نقشے نکلوا کر پرانی سے پرانی تجاوزات بھی ختم کروا دیں تھیں لیکن بعد میں کسی نے توجہ نہ دی اور لوگوں نے دوبارہ تجاوزات قائم کر لیں ان تجاوزات میں سرکاری اہلکاروں کی نااہلی کا بڑا عمل دخل ہے اگر تو میاں اظہر والی سپرٹ سے آپریشن کیا گیا تو یہ شہر پر احسان عظیم ہو گا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ پراسس تسلسل سے جاری رہنا چاہیے۔ جو بھی تجاوز کرے اسے سخت سزا دی جائے۔ ابھی جو تصور ہے وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ آپریشن ہو گیا دوبارہ کس نے آنا ہے لوگ دوبارہ تجاوز کر لیتے ہیں۔
ایک اور اہم معاملہ پر پنجاب حکومت نے بڑا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں دس سالوں کے بعد بڑے پیمانے پر نہروں کی بھل صفائی کا منصوبہ بنایا گیا ہے پنجاب کی 15300 میل لمبی نہروں کی بھل صفائی کی جائے گی جس سے بڑے پیمانے پر پانی کے ضیاع کو روک کر لاکھوں ایکڑ اضافی زمین کو سیراب کیا جا سکے گا۔ اسکی ساری منصوبہ بندی سیکرٹری آبپاشی واصف خورشید نے کی ہے۔ امید ہے کہ وہ بروقت بھل صفائی کا منصوبہ مکمل کر کے پنجاب کے کسانوں کو ریلیف دیں گے۔ علاوہ ازیں آئیندہ ایک ماہ میں پنجاب کے 17 شہروں میں سیف سٹی منصوبہ کے تخت کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں جس سے ان شہروں میں کرائم پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔