تاریک گلیوں کے روشن ستارے
20 دسمبر: یہ اس خاندان کی تاریخ ہے جو مقبوضہ کشمیر کے علاقے انت ناگ سے ہجرت کرکے پہلے دلی پھر امرتسر منتقل ہوا۔ یہ قیام پاکستان کے بعد اپنی جائیداد اور کاروبار چھوڑ کر لاھور کے اندرون شہر لوہاری دروازے ( موہلیاں ) میں دس مرلے کے مکان میں منتقل ہوا، اسپتال روڑ چھاپہ خانہ قائم کیا۔ یہ خاندان اندرون لاہور اپنی الگ تاریخ رکھتا ہے لیکن جب خواجہ رفیق نے اندرون شہر سے دوبارہ سیاست کا آغاز کیا اور لوہاری گیٹ کی سیاسی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔یوں شہر لاہور کو ایک دوست اور غریب پرور سیاستدان میسر آ گیا تھا۔ 24 گھنٹے غریبوں مزدوروں اور حاجت مندوں کے جھرمٹ میں رہنے والے خواجہ محمد رفیق نے لوہاری دروازے کے باہر اہل لاہور سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ غریب کے لیے پہلی گولی خواجہ رفیق کھائے گا اور پھر اس کا یہ قول پنجاب اسمبلی کی عمارت کے سائے میں سچ ثابت ہو گیا۔
20دسمبر 1972ءکی صبح طلوع ہوئی۔ حزبِ اختلاف نے لاہور میں یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا، تحریک استقلال، پاکستان اتحاد پارٹی اور لاہور کے وکلاءنے نیلا گنبد چوک سے مشترکہ جلوس نکالاجس کی قیادت ایئر مارشل اصغر خان، خواجہ محمد رفیق اور رابعہ قاری ایڈووکیٹ نے کی۔ شرکا کو آغاز سے مسلح غنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان غنڈوں نے پرامن جلوس پر دھاوا بول دیا۔پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ جلوس کے اِردگرد کی فضاءآغاز ہی سے کشیدہ رہی۔جلوس پنجاب اسمبلی پہنچ کر ختم ہوگیا۔ خواجہ محمد رفیق واپسی کے لئے کارکنوں کے ہمراہ کو پر روڈ کی طرف چل دئیے۔ چند ہی لمحوں بعد مسلح غنڈوں نے خواجہ محمد رفیق کے عقب میں آنے والے کارکنان کی ایک ٹولی پر حملہ کر دیا۔ان کی چیخیں اور آہ بکا سن کر خواجہ رفیق ان کو بچانے کے لئے آگے بڑھے۔ مسلح غنڈوں نے انہیں پہچان کر ان پر پہلے ڈنڈوں سے حملہ کیا۔ وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑے۔ پھر ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔خواجہ محمد رفیق زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔انکے سینے پر گولیوں کے پانچ نشان تھے۔
اگلے روز ان کا جنازہ ہوا جو لاہور کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں تھا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ خواجہ محمد رفیق شہید غریبوں، مزدوروں، مجبوروں اور مظلوموں کے سچے ہمدرد، ساتھی اور راہنما تھے۔جمہوریت کی سربلندی، سماجی انصاف کی بالادستی، معاشی ناہمواری کا خاتمہ اور غریب و متوسط طبقے کی بالادستی ان کی زندگی کا خواب اور مشن تھا۔ مختلف ادوار میں قیدوبند کی صعوبتیں، جسمانی تشدد اور مالی پریشانیاں ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکیں۔ خواجہ محمد رفیق شہید اس دنیائے رنگ و بو میں جتنا عرصہ بھی جیئے مرد قلندر کی مانند خوف اور طمع سے بے نیاز رہے۔ خواجہ رفیق کی شہادت کے بعد بیگم فرحت رفیق نے سکول ٹیچر کے بعد کونسلر سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 1985ءمیں عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور اہل لاہور نے اپنی محبت کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا اور بھاری اکثریت سے بیگم فرحت رفیق کو کامیاب کروایا۔ اور یوں ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا۔
جب وہ پہلی مرتبہ ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئیں تو انہوں نے عوامی مسائل حلقے کی تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل پر خصوصی توجہ دی۔ وہ ایک ملنسار خوش مزاج خوش گفتار خاتون تھیں جو گاہے بگاہے مسائل جاننے کے لیے محلے کے گھروں کی اور تنگ گلیوں سے گذر کر لوگوں کے پاس جایا کرتی تھیں اور کشمیری ہونے کے نسبت سے والدہ محترمہ سے خصوصی ربط رکھتیں۔ جب فرصت ملتی تو والدہ سے ملنے کے لیے لئے گھر تشریف لایا کرتی تھیں۔ سفید سرخ رنگ کالا بڑا سا چشمہ بڑا سا پرس جو ان کی شناخت تھا جب وہ بازار سے گزرتیں دکاندار احتراما کھڑے ہوجاتے اور سلام دعا کرتے۔ یہ اہل شہر کا خواجہ خاندان سے ایک اظہار محبت تھا۔ بیگم فرحت رفیق کی رحلت کے بعد ان کے بیٹوں خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق نے اپنی خاندانی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔