سکیورٹی کے مسائل اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی واپسی
پاکستان اور افغانستان کے مابین ان دنوں جو موضوعات سب سے زیادہ زیر بحث آتے ہیں ان میں سے ایک دہشت گردی کا مسئلہ ہے اور دوسرا پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں زیرو ٹالرینس یا کوئی رعایت نہ دینے کی پالیسی اختیار کر کے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہی ہے جس میں ملوث افراد میں کافی بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)جیسے دہشت گرد گروہ اور تنظیمیں ان افغان شہریوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان اس بارے میں بہت سے ثبوت افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت اور بین الاقوامی برادری کو دے چکا ہے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اسی مسئلے پر پاکستان کے موقف کی وضاحت کرنے کے لیے برطانوی جریدے ٹیلی گراف میں غیر قانونی تارکین وطن پر اپنی خصوصی تحریر میں یہ کہا ہے کہ بغیر دستاویز غیر قانونی مقیم افراد کو پاکستان میں قیام کی اجازت دے کر ہم اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں گزشتہ دہائیوں کے دوران تقریباً آئرلینڈ کی آبادی کے برابر تارکین وطن آچکے ہیں، ہم نے فراخدلی سے تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد کو سنبھالا ہے، مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ ہمارا مقصد پاکستان کو محفوظ، پر امن اور خوشحال بنانا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت مختلف ممالک بھی غیر قانونی تارکین وطن کے مسائل سے دوچار ہیں۔ غیرقانونی تارکین وطن کو رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن اور وطن واپسی کے متعدد مواقع فراہم کیے۔ اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان نے جلد بازی سے کام لیا۔
انوارالحق کاکڑ نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ بہت سے غیر قانونی لوگ مارکیٹ میں کام کرتے ہیں، کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ یہ لوگ انڈر ورلڈ کے استحصال کا شکار بھی ہیں۔ اگست 2021ئ سے کم از کم 16 افغان شہریوں نے پاکستان میں خودکش حملے کیے ہیں۔ 65 دہشت گرد مارے گئے۔ پاکستان نے جب بھی افغان حکومت کے ساتھ سکیورٹی کے مسائل پر بات چیت کی انھوں نے کہا کہ اپنا گھر ٹھیک کریں تو پاکستان نے آخرکار فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنا گھر ٹھیک کریں گے۔ غیر قانونی تارکین وطن کے انخلائ کے بارے میں پاکستان کی پالیسی سے متعلق سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور بے بنیاد الزامات کی بھرمار ہے۔ غیر قانونی افراد کے ساتھ احترام اور دیکھ بھال کے ساتھ برتاﺅ کرنے کے سخت احکامات دیے گئے ہیں۔ ہم نے تقریباً 79 ٹرانزٹ مراکز قائم کیے ہیں جو مفت کھانا، پناہ گاہ اور طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جس کا اعتراف اقوامِ متحدہ کی طرف سے بھی کیا جاچکا ہے کہ پاکستان نے دو چار ہزار یا لاکھ نہیں بلکہ چار سے پانچ ملین افغان شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور اس دوران ان کے ساتھ مثالی سلوک کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے 1951ئ کے مہاجرین کے کنونشن اور اس کے 1967ئ کے پروٹوکول پر دستخط نہ کیے تھے لیکن اس کے باوجود افغان شہریوں کو بطور مہاجرین قبول کرنے سے نہ تو انکار کیا گیا اور نہ ہی ان کے یہاں قیام کے دوران ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے وہ خود کو دوسروں کے مقابلے میں کم تر درجے کا سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان شہریوں نے نہ صرف پاکستان میں اپنے خاندان آباد کیے بلکہ یہاں سہولت سے کاروبار بھی کیے اور ملک کے طول و عرض میں لاکھوں افغان شہریوں کی موجودگی اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے۔
اس معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو مہمان نوازی کے صلے میں دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ملک کے اصل باشندے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اندریں حالات، نگران وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل جائز ہے کہ پاکستان تاریخ کے دوراہے پر ہوتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں غیر دستاویزی افراد کو ٹھہرا کر اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگوں کے خطے میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں سے روابط بھی ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے دہشت گردوں خاص طور پر سرحدی علاقے میں ان کی شناخت افغانی کے طور پر کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ذمہ دار حکومت اس طرح کے خدشات کو نظرانداز نہیں کر سکتی، جب بھی ہم نے یہ بات عبوری افغان حکومت کے ساتھ اٹھائی تو انھوں نے ہمیں اپنے اندر کی طرف دیکھنے کا مشورہ دیا، ہم نے آخر کار اپنے گھر کو ترتیب دینے کے لیے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی حوالے سے نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کا سوموار کو دیا گیا ایک انٹرویو بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے کہا کہ غیر ملکی تارکین وطن قانونی دستاویزات اور ویزے کے بغیر غیر محدود عرصے تک پاکستان میں قیام نہیں کر سکتے، غیر قانونی تارکین وطن کو اپنے ملک واپس بھیجنے کے حوالے سے پاکستان پر تنقید بیرون ممالک سے ہوئی، ہم نے صرف ایسے غیر ملکیوں کو اپنے ملک واپس جانے کو کہا جن کے پاس دستاویزات یا ویزے موجود نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 20 ہزار ایسے افغان باشندے موجود ہیں جنھوں نے امریکی اتحادی فوج کے ساتھ کام کیا، افغان حکومت ابھی تک ان 20 ہزار افغانوں کو اپنے ہاں منتقل نہیں کر سکی۔ مرتضیٰ سولنگی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ دنیا میں جو سلوک ہوتا ہے، وہ سب جانتے ہیں جبکہ غیر قانونی مقیم افراد کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان شہری قانونی طور پر موجود ہیں جنھیں صحت، تعلیم اور کاروبار سمیت تمام سہولیات میسر ہیں۔
سوشل میڈیا پر پاکستان سے غیر قانونی تارکین وطن کو نکالے جانے کے حوالے سے جو منفی پروپیگنڈا ہورہا ہے اس کے جھوٹ اور باطل ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے تمام غیر قانونی تارکین کو یہاں سے نہیں نکالا اور خطرے سے دوچار گروپوں کو جن میں موسیقار، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن وغیرہ شامل ہیں، ملک بدر نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، ہمارے سکیورٹی اہلکار تارکین وطن کو سرحدی گزرگاہوں تک لے جا رہے ہیں۔ اس دوران نہ صرف خواتین اور بچوں کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے بلکہ ایمرجنسی ہیلپ لائنز بھی قائم کی گئی ہیں جن کے ذریعے کسی بھی بدسلوکی کے بارے میں اطلاع دی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ افغانستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی وہ پاکستان نے پیدا نہیں کی، لہٰذا افغان تارکینِ وطن کو سنبھالنا صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے، اس سلسلے میں دوسرے ممالک کو بھی آگے آنا چاہیے اور ان مسائل کے حل میں ہماری مدد کرنی چاہیے جو ان تارکین کے پاکستان میں قیام کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں۔