• news

کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

فلسطین کی طرح کشمیر بھی حساس نوعیت کا متنازع مسئلہ ہے، جو گزشتہ 76سالوں سے پاکستان اور بھارت کے بیچ سخت کشیدگی کا باعث بھی رہا ہے۔ اس پر تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اگر چہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس مسئلے پر 1948ءمیں کثرت رائے سے ایک قرار داد منظور کی جس میں کہا گیا کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا وہ الگ ریاست کے متمنی ہیں۔ یہ فیصلہ حق خود ارادیت سے ہو گا۔ انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ہندوستان نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے باوجود کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم نہیں کیا جس کے باعث 76 سالوں سے برصغیر ایشیائ میں کشیدگی کا ماحول ہے جس سے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کی زندگی اجیرن اور متاثر ہے۔
حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے خصوصی آرٹیکل 370 کے خاتمے سے متعلق بھارتی پارلیمنٹ کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو درست قرار دیا۔ اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خطے میں خصوصی حیثیت حاصل تھی ،پاکستانی سرکار نے اقوام متحدہ میں اپنے مندوب کے ذریعے اپنی تشویش سے عالمی ادارے کو آگاہ کر دیا ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ آرٹیکل 370کے خاتمے سے خطے میں کیا خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
آئین ہند کی دفعہ 370ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی تھی۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ وفاقی (بھارتی) آئین کے نفاذ کو ریاست جموں و کشمیر میں ممنوع قرار دیتی ہے۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا مرکزی پارلیمان ریاستی حکومت (جموں و کشمیر) کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارت سرکار کے بنائے ہوئے قوانین کا نفاذ ریاست میں نہیں کیا جا سکتا۔ دفعہ 370کے تحت ریاست کو خطے میں خصوصی مقام حاصل تھا۔ بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر بھارتی ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں نافذ نہیں کئے جا سکتے تھے۔ 
دفعہ 370کے تحت ریاست کے بہت سے بنیادی امور جن میں جائیداد کی خریدو فروخت، شہریت اور دیگر بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں، عام بھارتی قوانین سے مختلف تھے۔
 1927ءمیں مہاراجہ ہری سنگھ کے باشندگان ِ ریاست کے قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی بھارتی شہری ریاست جموں و کشمیر میں کوئی جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔ حتیٰ کہ نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی اس دفعہ کے ہوتے ہوئے ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائیداد حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔ نیز بھارتی شہریت رکھنے والے بھی یہاں رہائش نہیں رکھ سکتے تھے، نہ ہی رہائشی کالونیاں بنا سکتے تھے۔ صنعتی کارخانے اور ڈیم بنانے کی بھی ممانعت تھی یعنی غیر ریاستی باشندے یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ کسی بھی قسم کی تعمیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھا۔
جب ریاست جموں و کشمیر میں دفعہ 370کا نفاذ ہوا تو اسے نافذ کرنے کا مقصد کشمیریوں کے ریاستی حقوق کا تحفظ تھا۔ اس دفعہ کا محرک دہائیوں قبل ریاست کے مہاراجہ تھے۔ اس آرٹیکل میں کہا گیا کہ ریاست کو کسی بھی طرح بھارتی آئین کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس کے مقاصد حسب ذیل تھے:
1۔ریاست میں بھارتی آئین کے صرف چند امور کا نفاذ ہو گا۔
2۔ریاست اپنا آئین خود وضع کرے گی جو ریاست میں سرکاری ڈھانچے کو تشکیل دے گا۔
3۔مرکزی حکومت کی کوئی بھی انتظامی تبدیلی صرف اِس وقت ریاست میں کی جا سکے گی جب ریاستی اسمبلی اجازت دے گی۔
4۔اس دفعہ کو صرف اسی وقت تبدیل کیا جا سکتا ہے جب دفعہ میں تبدیلی کے تقاضے پورے ہوں اور ریاست کی مرضی اس میں شامل ہو۔ جس کی ترجمانی ریاست کی اسمبلی کرے گی۔
5۔دفعہ 370میں تبدیلی صرف ریاستی اسمبلی کی سفارش پر کی جا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کسی آئینی تبدیلی کی مجاز نہیں ہو گی۔
ریاست جموں و کشمیر میں دفعہ 370کا خاتمہ، خطے میں امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ صرف کشمیری ہی نہیں، مسئلے کا اہم ترین فریق پاکستان بھی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایٹمی قوت رکھتے ہیں۔ ان کے مابین مڈبھیڑ ہوتی ہے تو یہ خطے میں ہی نہیں، پوری دنیا کے لیے مہلک اور بہت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں، پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں آزادی کے متوالے موجود ہیں، بھارتی سپریم کورٹ کے اس ”فیصلے“ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے تو گزشتہ ہفتے آزاد کشمیر کے دورے کے دوران آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔“ 
بھارت کو بھی معاملے کی سنگینی کا احساس ہونا چاہیے۔ جنگ ہوئی تو سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا۔ پاکستان کی مسلح افواج چوکس اور دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کے لیے ہر دم تیار ہیں۔
تنازع کے حل میں ہی سب کی بقا ہے۔ بھارت سلامتی چاہتا ہے تو خطے کو جنگ کی آگ کا ایندھن نہ بننے دے۔ ٹھنڈے دل سے غور کرے کہ جنگ ہوئی تو اس کے مہیب سائے دہائیوں ایشیاءکو اپنی لپیٹ میں لیے رکھیں گے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی غریب ملک ہیں۔ 90فیصد لوگ یہاں غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر طرح کے وسائل کا فقدان ہے ، وسائل جو میسر ہیں انہیں اگر گولہ بارود خریدنے پر لگا دیں گے تو دونوں ملکوں میں خوشحالی لانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
اس موقع پر یہ کہنا بھی بے حد ضروری ہے کہ کشمیر کاز کے لیے صحافیوں نے بھی کلیدی رول ادا کیا ہے جن میں سرفہرست نام مجید نظامی مرحوم کا ہے۔ نظامی صاحب نے”نوائے وقت“ کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ کشمیر کا ز کے لیے کام کیا۔ ”نوائے وقت“ کا ایڈیٹوریل پیج آج بھی کشمیر کے تناظر میں آنے والے ہر کالم کو نمایاں جگہ اور ترجیح دیتا ہے۔ کشمیر کاز کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور تحریکوں کی بھی ”نوائے وقت“ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ کسی مالی منفعت کے بغیر اس طرح کا کام کرنا واقعی بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے۔
پاکستان کشمیر میں دفعہ 370کے دوبارہ نفاذ کے لیے آواز بلند کر رہا ہے۔ یہ آواز دنیا بھر میں سنی جا رہی ہے۔ سلامتی کونسل کو کم از کم اس سلسلے میں اپنا جاندار اور موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ عالمی ادارہ پہلے ہی اپنی افادیت کھوئے ہوئے ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو یہ اپنی باقی ماندہ قدروقیمت بھی کھو بیٹھے گا۔
٭....٭....٭

سعد اختر

سعد اختر

ای پیپر-دی نیشن