• news

بدھ‘ 6 جمادی الثانی‘ 1445ھ ‘ 20 دسمبر 2023ئ


شہباز شریف کا کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے کا امکان۔
 مخالفین کو جملہ چست کرنے کا موقع مل جائے گا "چھوٹے میاں صاحب نَٹھ" گئے بلکہ کچھ جان پہچان والے بھی ایسے ہوتے ہیں جو فقرہ ضائع نہیں کرتے دوست گنوا دیتے ہیں۔ شہباز شریف نے 2018ءکے الیکشن میں بھی کراچی سے حصہ لیا تھا۔ یہ تھوڑا ترش ماضی ہے۔ -تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ان کے خلاف فیصل واوڈا تھوڑے سے مارجن سے جیت گئے تھے- عرصہ ہوا واوڈا نے تحریک انصاف سے قطع تعلق کر لیا تھا۔لاتعلقی اختیار کرنے سے قبل ان کی بطور ایم این اے اہلیت قطع ہو گئی تھی۔ خان صاحب نے ان سے قطع نظر نہیں کیا۔ سینٹری نچھاور کر دی، مطلب سینیٹر بنا دیا۔ شہباز شریف اور نواز شریف کے لاہور کی ہر سیٹ کو پی ٹی آئی والے غیر محفوظ قرار دے رہے ہیں۔ گویا بزعم خویش پی ٹی آئی لاہورمیں اپنا ڈنکا بجتا اور طوطی بولتادیکھ رہی ہے۔ان کے بقول اسی لیے لیگی لیڈرلاہور سے باہر کی سیٹوں کو محفوظ سمجھ کرالیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والوں کی میڈیکل ہسٹری چیک کی جائے۔ کہیں دماغی خلل کے سرٹیفکیٹ کا اجرا تو نہیں ہو چکا۔شہباز شریف کے کراچی سے الیکشن لڑنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ایک وجہ تو واوڈا کو اسی حلقے سے چیلنج کرنا ہو سکتا ہے۔اب خان کے بغیر ذرا آو¿ میدان کارزار میں! یہ پاکستان کی سیاست ہے۔ واوڈا حماد اظہر کے برتے پر شہباز شریف کا چیلنج قبول کر سکتے ہیں۔ حماد اظہر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے بھی ٹکٹ کی درخواست دے سکتے ہیں۔ جی ہاں، الیکشن کےلئے ٹکٹ کی درخواست اور کیا موت کے کنویں، ٹرین جہاز یا جنت کے ٹکٹ کی بات ہو رہی ہے؟ ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ شہباز شریف کا کراچی کے لوگوں کے شانہ بشانہ ہونے کا اچھا فیصلہ ہے۔1971ءکے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کا ایک امیدوار لاہور سے بھی الیکشن لڑا تھا۔ ملک حامد سرفراز۔ گو وہ ہار گئے تھے مگرووٹرنے تعصب کے تاثر کو ضرورتوڑدیا تھا۔
٭....٭....٭
شیر افضل مروت کی ضمانت منظور،رہا کردیا گیا
گرفتاری سے ایک روز قبل شیر افضل نے کہا تھا کہ پولیس نے مجھے اغواءکرنے کی کوشش کی۔اس دن تو وہ گرفتاری سے بچ گئے ،اگلے روزلاہور پہنچے تو دھر لئے گئے۔پولیس نے جب گرفتار کرنا ہو تو کوشش نہیں کرتی گرفتار کرلیتی ہے۔ شیر افضل مروت سیاست میں شہرت کے زینے بڑی تیزی سے چڑھے۔ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وکیلوں کے بغیر پی پی کی کوئی ٹکٹ لینے والا نہیں ہے۔ شیر افضل وکیل ہے۔ ایک اور پی ٹی آئی میں وکیل کم سیاستدان ہیں بلکہ کئی ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں بیرسٹر گوہر خان کی وہ رات کو سوئے صبح اٹھے تو عمران خان کی چیئرمین شپ کی سیٹ پر جلوہ افروز تھے۔ پارٹی چیئرمین نے بڑے بڑے عہدے پر پہنچنا ہوتا ہے اور اچھے اور ب±رے وقت کا دوراہا ہو تو کئی سیاستدان کبھی اصول کبھی انا اور کبھی حماقت کی وجہ سے ب±رے وقت کو ماسی کہہ دیتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کو چیئرمین شپ ملی ہے اس چیئرمینی کے باعث خان صاحب وزیراعظم بنے۔ آج جیل میں ہیں۔ بیرسٹر گوہر کے لیے دونوں راستے کھلے ہیں۔ 
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
 شیر افضل جو اسمِ بامسمیٰ ہیں۔ نام شیر دل ہوتا تو بھی درست تھا۔ مسلم لیگ نون میں ہوتے تو ان کو شیر لانے کی ضرورت نہ ہوتی انہی کی رونمائی کرتے بس ایک د±م لگانے کی ضرورت ہوتی۔شیر کے سینگ نہیں ہوتے انکے بھی نہیں ہیں۔ مروت نے تھا کہ ان کو پولیس نے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ پولیس نے صرف ڈراوا دیاتھا۔ ایسے ڈراوے کی بنا پر کئی پی ٹی آئی رہنما رو پوش ہیں۔ ان میں سے کئی کو پولیس تلاش کر کے بحفاظت انکے گھروں میں پہنچا چکی ہے۔ پولیس نے کسی کو اٹھانا ہو تو اسکی دوڑ، آگے لگ کر دوڑنے والے سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔کوئی کہیں چھپ جائے، پہاڑ پر چڑھ جائے یاکھیت میں وڑ جائے پولیس جب چاہے، دل و جان سے چاہے تو اٹھاہی لیتی ہے۔بالآخر شیر کی باری آگئی اور اس نے بھگتا لی۔
٭....٭....٭
وکیل کی جیب میں موبائل فون پھٹ گیا۔ 
یہ عجیب واقعہ اسلام آباد میں سرعام بلکہ سر میدان پیش آیا جس کے کئی چشم دید گواہ بھی ہیں۔ وکیل کے مطابق رات کو موبائل چارج کیا تھا، جیب میں پاور بینک بھی نہیں تھا۔ جیب سے کسی نے دھواں اٹھتے دیکھا توکوٹ پوش مالکِ موبائل کو آگاہ کیا اس نے کوٹ کو وبال جان کراتار پھینکا۔بتانے والے نے دھواں اٹھتا دیکھ کر پہلے تو سوچا ہوگا: یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ مگر اگلے لمحے بغیر تحقیق کے اہل موبائل اور اہلِ کوٹ کو جگا دیا۔ ایک مرتبہ جنرل ضیاءالحق کَش لگا رہے تھے۔معاً بھٹوصاحب سامنے آئے تو جنرل نے فورا سگریٹ توڑ مروڑ کر جیب میں ڈال لی۔ سمجھے کہ بجھ گئی ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی جیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جنرل صاحب آپ کی جرنیلی سلگ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ افواہیں پھیلی تھیں کہ فلاں جگہ پر موبائل پھٹ گیا، فلاں جگہ پر موبائل میں دھماکہ ہو گیا مگر اس کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔ بگولے کی طرح افواہ خود بنتی اور پھیلتی ہی چلی گئی۔ شاید کسی کا م±نڈا موبائل مانگ رہا تھا تو اس نے یہ مہم شروع کر دی۔ بہرحال وکیل صاحب کا کالا کوٹ بھی گیا اور موبائل بھی گیا۔ موبائل ٹچ تھا یا نمبروں والا ؟
٭....٭....٭
پولیس پر گولی چلانے والوں کو جواب گولی سے دیا جائے گا، آئی جی پنجاب-
ہم عموماً سنتے ہیں فلاں نے ملک کو قوم کو معاشرے کو وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا -یہ لوٹنے والے کی مجبوری بلکہ بے بسی و بے کسی ہے کہ اس کے پاس لوٹنے کے لیے صرف دو ہی ہاتھ تھے- تین چار ہوتے تو ڈیڑھ گنا دو گنا زیادہ لوٹتا -پولیس بھی مجبور محض ہے وہ گولی کا جواب گولی ہی سے دے سکتی ہے- اس کے پاس ویسے بھی اسلم رئیسانی کے بقول ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یانقلی،پولیس کے پاس بندوق ہوتی ہے خواہ سلطان حیدر علی کے سپاہیوں کو دی جانے والی ہو۔جرائم پیشہ عناصر کے پاس جدید ترین اسلحہ ہوتا ہے پولیس پر فائرنگ ہو تو جواب میں چن ماہی ٹریگر دبا دیتاہے۔ گولی چلے نہ چلے ،چلے تو سامنے جائے، اوپر جائے، نیچے جائے یا واپس آئے۔ پولیس کے پاس بندوق ہی ہوتی ہے ٹینک توپ تو ہوتی نہیں کہ گولی کا جواب گولے سے دے سکے- گاو¿ں میں ڈیرے پر ایک نوجوان نے بتایا کہ اس نے آبائی پیشہ جفت سازی چھوڑ کر راج مستری کا کام شروع کر دیا۔ تھانے سے فون آیا کہ جلدی آو¿ تھوڑا کام کرانا ہے۔ یہ بھاگم بھاگ گیا، بڑا خوش کہ پولیس کی خدمت کا موقع ملا ہے
پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
 کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی
سوچا سلام دعا مزید گہری اور گ±وڑھی ہو جائے گی- وہاں جا کر پتہ چلا کہ اس نے فائرنگ کی ہے۔ اسے کانڈی،تیسی سالھ سمیت حوالات میں بند کر دیاگیا- اسی تھانے میں ایک ڈرائیور نے رپورٹ درج کرائی کہ ٹرک پر کیمیکل لے کے جا رہا تھا۔ ڈاکو ٹرک اور موبائل فون لے گئے جیب میں ذاتی 900 روپے تھا وہ بھی لے لیا- اس کاڈرائیورکو دلی صدمہ تھا- ٹرک کے مالک آئے تو ڈرائیور پر مقدمہ درج کرا دیا کہ یہ ڈاکوو¿ں سے ملا ہوا تھا- کیمیکل والوں کو خبر ہوئی تو ٹرک مالک اور ڈرائیور دونوں پر مقدمہ کرا دیا- یہ لوگ ذرا تگڑے تھے- ٹرک مالک ہوش میں آتا ہے تو دو چار خدمتیں کرا کے پھر اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتا ہے- پولیس ان سے ایسے نمٹ رہی ہے جیسے انہوں نے پولیس پر گولی چلا دی ہے-راج مستری کے پیشے سے نیا نیا وابستہ ہونے والا نوجوان کہہ رہا تھا کہ اگر موچی بھی فائرنگ کرنے لگ جائیں تو سمجھ لیں کہ پاکستان میں انقلاب آگیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن