پیچھے…کوئی ہے!
پی ٹی آئی کے وکالتی رہنما حامد خاں نے پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے بیانات پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا، لگتا ہے ان کے پیچھے کوئی ہے۔
دونوں تنظیموں نے یکایک جیسے انگڑائی لی اور یکے بعد دیگرے، کم و بیش ایک ہی وقت میں دو پریس ریلیز جاری کر کے سب کو چونکا ڈالا تھا۔ بیانات میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوں، فوراً اور ابھی کے ابھی! اکیلے حامد خاں کیا، اور بھی بہت سوں نے یہی مطلب لیا کہ ان دونوں انجمنوں کے پیچھے کوئی ہے یا کوئی تو ہے جو الیکشن ملتوی کرانا چاہتا ہے۔
پیچھے کوئی ہے، یہ سوال ہر دور میں سوالیہ نشان رہا ہے۔ کوئی سے مراد ’’ادارے‘‘ یا ماورائے بصر قوّتیں لی جاتی ہیں۔ ماجرائے عجب یہ ہے کہ جب یہ قوّتیں کسی کے پیچھے تھیں تو کسی کو نظر نہیں آتی تھیں، اب وہ پیچھے نہیں ہیں بلکہ وہیں ہیں جہاں ہونا چاہیے تو سب کو یہ قوتیں کسی کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہیں۔ جھانجھریا نہیں ہے لیکن جھانجن سنائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ سابق وزیر داخلہ سرفراز بگتی اپنی افتاد طبع ، سیاسی نظریات اور صف بندی کے پیش نظر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تو اس پر بھی غل مچا، کوئی ہے جس نے بگتی صاحب کو مسلم لیگ ن کے بجائے پیپلز پارٹی میں جانے کا حکم دیا۔ بات صاف ہو گئی، مسلم لیگ اب لاڈلی نہیں رہی، یہ منصب اب پیپلز پارٹی کو مل گیا۔ جب پی ٹی آئی نے ہائیکورٹ سے آر اوز والے کیس میں اپنی پسند کا آرڈر لیا، تب بھی کہا گیا، کوئی ہے جو الیکشن ملتوی کرانا چاہتا ہے، اگرچہ یہ ’’کوئی‘‘ ماسوائے پی ٹی آئی کے کوئی نہیں تھا۔
_____
معاملہ اب بہرحال کھل گیا، یہ کوئی خود ایک معزز وکالتی رہنما احسن بھون نکلے۔ جن کا ارادہ حافظ آباد سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا تھا۔ ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک ہی سیٹ ہے۔ انہوں نے دو سیٹیں بنانے کیلئے حلقہ بندی کو چیلنج کر دیا۔ اس طرح کے اور بھی کیس تھے جو سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر روک دئیے کہ الیکشن شیڈول آنے کے بعد نئے حلقے نہیں بن سکتے۔ بھون صاحب مایوس ہوئے اور برہم بھی لیکن غصہ سپریم کورٹ پر تو نکال نہیں سکتے تھے، چیف الیکشن کمشنر پر نکال دیا جو آج کل غریب کی جورد بنے ہوئے ہیں، ہر کوئی بھابھی بھابھی کہہ کر ان پر لپکا پڑ رہا ہے۔ بھون صاحب نے وہ کہاوت سچ ثابت کر دی کہ میں ڈوبا تو جگ ڈوبا۔ میں الیکشن نہیں لڑ سکتا تو کوئی اور کیوں لڑے۔ الیکشن کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے، چنانچہ، چلئے، الیکشن کمشنر کی چھٹی کرانے سے شروعات کرتے ہیں۔
بھون صاحب قومی اسمبلی کی واحد دستیاب سیٹ پر الیکشن اس لئے نہیں لڑ سکتے کہ وہاں سے ان کے دوست اعظم نذیر تارڑنے الیکشن لڑنا ہے۔ بہرحال، اب کھودے گئے پہاڑ سے برآمد ہونے والی شے برآمد ہو چکی ہے تو معاملہ ٹھس ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دونوں پریس ریلیزوں میں ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکی بھی دے ڈالی گئی۔
وکلا کی سیاسی معاملات پر تحریک چلانے میں کامیابی کی کوئی مثال نہیں ہے۔ نہ دنیا میں نہ پاکستان میں۔ ہمارے ہاں چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لیے وکلا نے ایک بڑی تحریک چلائی تھی لیکن پورا زور لگا کر بھی وہ کامیابی سے دور رہی۔ افتخار چودھری وکیلوں کی تحریک کے نتیجے میں بحال نہیں ہوئے۔ وہ تب بحال ہوئے جب مسلم لیگ ن میدان میں آئی اور لاکھوں کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے نواز شریف گوجرانوالہ جا پہنچے۔
وکلا کی اس تحریک کے چند اجزا ئے ترکیبی ملاحظہ فرمائیے۔ پہلا جزو وہی ’’کوئی‘‘ ہے والا تھا۔ سب کو معلوم ہوا، اگرچہ بعدازاں، کہ افتخار چودھری کے پیچھے ادارے اپنی پوری قوت سے کھڑے تھے جو پرویز مشرف کو ’’بوجھ‘‘ سمجھنے لگے تھے۔ دوسرا جزو، ملک کی تمام وکالتی تنظیمیں یا دوسرے لفظوں میں سو فیصد وکیل اس میں شامل تھے۔ تیسرا جزو۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ماسوائے قاف لیگ اور الطاف لیگ اس تحریک کے ساتھ تھیں۔ چوتھا جزو، ملکی میڈیا یک آواز ہو کر اس تحریک کا حامی و مدد گار تھا۔
ان عناصر اربعہ میں سے ایک بھی بھون صاحب کو میسر نہیں۔ اوپر سے کلنک کا یہ ٹیکہ ازخود لگ گیا کہ الیکشن ملتوی کرانے کی خواہش مند قوتیں بھون صاحب کے پیچھے ہیں۔ یہاں بھون صاحب سے یہ سوال کرنا نہیں بنتا کہ کیا کھویا ، کیا پایا۔ اس لئے کہ یہاں تو سب کھویا ہی کھویا ہو گیا ہے۔
_____
میں ڈوبا جگ ڈوبا کی تاریخ کی سب سے عظیم الشان مثال ہمارے ’’گریٹ‘‘ خان قائم کر چکے ہیں اور انہوں نے بھی سب کھویا ہی کھویا کا نمونہ ہی دکھایا۔ اقتدار سے محروم ہوئے تو فرمایا، اس سے بہتر تھا ملک پر ایٹم بم مار دو۔ ملک سے مراد پاکستان تھی اور جو فرمایا، پاکستانیوں کے جلسے میں سرعام فرمایا اور جلسہ سننے والوں نے اس فقرے پر داد دی۔ پھر ایک اور جلسے میں فرمایا، اگر میری حکومت ہی نہیں رہی تھی تو اس ملک کو بنانے کا فائدہ، نہ بنایا ہوتا۔ یہ بھی جلسے میں فرمایا اور جلسے والوں نے اس کی داد بھی دی۔ پھر فرمایا کہ میری حکومت واپس بحال نہ ہوئی تو ملک کے بھی تین ٹکڑے ہو جائیں گے اور فوج کے بھی۔ یہ بھی انہوں نے جلسہ عام میں فرمایا اور داد دینے والوں نے اس کی بھی داد دی۔
ثابت ہوا کہ ’’میں‘‘ ڈوبنے سے جگ نہیں ڈوبا کرتے۔ اس مقولے کو مایوس کی فریاد کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔
_____
امریکہ نے یمن پر حملہ کرنے کیلئے کوئی ٹاسک فورس بنائی ہے اور ایک عرب ریاست بحرین کو اس کا رکن بنایا ہے۔ ان ممالک کی بحری فوجیں یمن پر حملہ کریں گی۔ پینٹاگان نے، بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق صدر بائیڈن کو اس حوالے سے سمری بھجوانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
بحرین بارہ چودہ لاکھ آبادی والا جزیرہ ہے اور اس کی ’’بحریہ‘‘ مبلغ ایک عدد فریگیٹ پر مشتمل ہے۔ یہ ایک فریگیٹی نیوی کس پر کیا حملہ کرے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ کچھ اور عرب ممالک کی نیوی، بحرینی نشان لگا کر یمن پر حملہ آور ہو گی۔ یعنی پھر وہی، بحرین کے پیچھے کوئی ہے۔ یعنی کوئی اور ہے۔