• news

 رحمت شاہ آفریدی اور ظہور احمد اظہر بھی چل بسے 

رحمت شاہ آفریدی کے بارے میں گزشتہ کالم میں جہاں بات ختم ہوئی تھی وہیں سے شروع کرتے ہیں۔انکی حب الوطنی کے بارے میں سلیم بخاری صاحب نے بتایا تھا۔ جس کی آفریدی صاحب نے تصدیق کی تھی۔اتفاق سے بخاری صاحب سے دوروز قبل پھر ملاقات ہوئی۔وہ کہتے ہیں، وزیر اعظم بے نظیر بھٹو امریکہ کے دورے پر تھیں۔ امریکہ نے دفاعی سامان کی فراہمی کیلئے کیش کی شرط رکھ دی۔یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ سے بھی مل جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے رحمت شاہ آفریدی کو فون کیا۔ ’’آفریدی بھائی سوا دو ارب روپے کی ضرورت ہے‘‘۔ آفریدی کا جواب تھا آج اتوار ہے کل پیسے مل جائیں گے۔ اگلے روز سوا دو ارب روپے مالیت کے برابر ڈالر امریکہ پہنچا دیئے گئے۔ یہ نوے کی دہائی کی بات ہے۔ بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی پر قومی خزانے سے رحمت شاہ آفریدی کو یہ رقم لوٹانا تھی مگر تھوڑے دنوں بعد ان کی حکومت توڑ دی گئی۔ اسلحہ پاکستان پہنچ گیا مگر پیسوں کا نہ کبھی آفریدی نے مطالبہ کیا نہ کسی نے دینے کی کوشش کی۔
رحمت شاہ آفریدی نے ایک اور واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں۔’’ 1995ء میں جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف اور جنرل محمود ڈی جی، ایم آئی تھے۔جنرل محمود کی طرف مجھے ملنے کو کہا گیا مگر میں نے ملنے سے معذرت کر لی۔ میرے ایک عزیز آئی ایس آئی میں کرنل تھے۔ ان کے ذریعے جنرل محمود سے ملنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی تو میں ملنے چلا گیا۔ ان دنوں پاکستان کا یوکرائن سے 400 ٹی 80 ٹینک خریدنے کا معاہدہ ہوا جو بھارت نے روس کے ذریعے یوکرائن پر دبائو ڈلوا کر کینسل کرا دیا۔ یہ بہترین کارکردگی کے حامل ٹینک ہیں۔ پانی، کیچڑ،برف اور برفباری میں بھی دشمن کی صفوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے کہا کہ میں یوکرائن سے ٹینکوں کی درآمد میں اپنا کردار ادا کروں۔ یہ قوم و ملک کی ضرورت تھی اس لئے میں سرگرم ہو گیا۔ یوکرائن کی اوپن مارکیٹ سے خفیہ طریقے سے ٹینک خریدنے کی ڈیل پر دن رات کام کیا۔ پاکستان میں ان ٹینکوں کے لئے یوکرائن کی نمائندگی کرنل (ر) محمود کر رہے تھے۔ ان کو فوج میں کرنل مودے کے نام سے زیادہ جانا جاتا تھا۔ یہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے کورس میٹ اور دوست تھے۔ میں اپنے مشن میں اپنے تعلقات اور رابطوں کے باعث کامیاب رہا۔ یوکرائن میں ٹینکوں یا اسلحہ کی ڈیل کرنیوالوں کو ایڈمرل کہتے ہیں۔ ان کی بیگمات کو میں نے 55 لاکھ روپے کے تحفے دیئے۔ ایڈمرلز سے میرے تعلقات اور دوستی کے باعث انہوں نے جو قیمت معاہدے میں طے ہوئی تھی اس میں دس فیصد کمی کر دی۔ طے یہ پایا کہ اس ڈیل میں پاکستان کا ذکر نہیں ہو گا۔ پاکستان کے بجائے کسی اور ملک سے ڈیل ظاہر کی جائے گی۔ یہ بندوبست بھی ہو گیا۔ طے پایا کہ ٹینک سمندر میں پاکستان کے حوالے کئے جائیں گے اوراَن اسمبلڈ ہونگے۔ اسمبلنگ کیلئے یوکرائن سے ماہر آئیں گے۔ جو پاکستانیوں کے سامنے کچھ ٹینک اسمبل کریں گے تاکہ پاکستانیوں کو اسمبلنگ کا تجربہ ہو جو ان کیلئے ٹینک سازی میں کام آئے۔ مجھے اس ڈیل کیلئے 6 ماہ مسلسل ملک سے باہر رہنا پڑا۔ ان دنوں ڈی جی۔ سی ڈی Combined Division جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ تھے۔ جو شفاف کردار کے مالک اور ایماندار آدمی ہیں۔ ڈیل فائنل ہو گئی مگر۔۔۔ یہ سرے نہ چڑھ سکی۔ جن لوگوں نے مجھے یہ مشن سونپا تھا۔ میں ان کے پاس پہنچا۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ مگر یہ معمہ کوئی بھی حل کرنے پر مائل نہیں تھا۔ آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ ڈیل کیوں کینسل ہوئی! شاید جنرل ضیاء الدین اس راز سے پردہ اٹھا سکیں۔
ٹینکوں والی کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔میری ملاقات جنرل ضیاء الدین بٹ سے بھی کتاب ہی کیلئے ان کی زندگی کے پر خطر واقعات جاننے کے لئے ہوئی۔جنرل صاحب کو رحمت شاہ آفریدی کی بیان کردہ رو داد سنائی تو انہوں نے ایسی کسی ڈیل سے لاعلمی ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا۔’’ ٹی 80 یوڈی بہترین قسم کا ٹینک ہے جو یوکرائن سے معاہدے کے مطابق پاکستان کو مل گئے تھے۔جو بھی ہوا ٹینک پاکستان کے دفاع کا حصہ بن گئے۔ 
جن دنوں رحمت شاہ افریدی کے انتقال کی خبر آئی انہی دنوں ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کے سانحہ ارتحال کی بھی اطلاع ملی۔ ان کے ملازم علی نے فون کر کے بتایا اور کہاکہ اخبارات میں خبر دینی ہے۔ ظہور احمد اظہر صاحب سے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں البتہ ان سے ملنے کا ہمیشہ سے اشتیاق ضرور تھا۔ اس کی وجہ ان کی طرف سے لاہور میں کرنل قذافی کی تقریر کا فی البدیہہ یعنی برجستہ ترجمہ کرنا تھاجو جلسہ عام میں 1974ء   میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر کی گئی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس جلسے کا اہتمام کیا تھا قذافی سٹیڈیم کرنل قذافی سے منسوب ہے۔یہیں جلسہ ہوا تھا۔ یہ تقریر ریڈیو پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔شاید ٹی وی پر بھی…۔ میں نے ریڈیو پر سنی میں ان دنو ساتویں کا سٹوڈنٹ تھا۔کرنل قذافی کی کمال کی خطابت ساتھ ساتھ ترجمہ لاجواب تھا۔قدرت نے ایسا تال میل کیا،یوں لگتا تھا کرنل قذافی عربی میں دو فقرے بولتے ہیں بعد میں اردو میں ترجمہ بھی کیے جا رہے ہیں۔ ایسی روانی اور یکسانی، اتفاق تھا یا قدرت کی مہربانی تھی۔ نوائے وقت میں ڈاکٹر ظہور احمد اظہر صاحب سے ایک دو ملاقاتیں ہوئیں۔ عربی زبان میں لکھی ہوئی کتاب انہوں نے عنایت کی۔ آخری دنوں میں وہ ڈائیلائسز پر تھے۔ میں نے ان کا چند ماہ قبل ویڈیو انٹرویو کیا تھا۔ بڑھاپا اپنی جگہ مگر چاک وچو بند نظر آئے۔انتقال سے چند روز قبل علی کا فون آیا کہ اظہر صاحب مجھے کتاب پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بس جاتے جاتے رہ گیا۔اسی تحریر کے دوران علی کو فون کیااس نے کہا کہ تین کتابیں آپ کیلئے پڑی ہیں۔
ظہور احمد اظہر نے عملی زندگی کا آغاز گڈریئے، چرواہے کے طور پر کیا اور پھر اپنی محنت کے بل بوتے پر عالمی سطح کی شہرت پائی۔ میری ہمیشہ سے کرنل قذافی کی تقریر سے دلچسپی رہی ہے۔ وہ کلاسیکل تقریر اور ترجمہ ہے۔ ظہور صاحب سے کیسٹ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پی ٹی وی کے کسی جاننے والے افسر نے ادھر ادھر کر دی تھی۔ اگر پی ٹی وی والے تھوڑی سی کوشش کریں تومل سکتی ہے۔ ریڈیو پاکستان والے بھی آرکائیو کو ذرا دیکھ لیں۔

فضل حسین اعوان....شفق

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر-دی نیشن