• news

 لیاقت علی خان ماسکو کیوں نہیں گئے؟

اس واقعے کو گزرے ویسے تو پون صدی کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن آج بھی بہت سے لوگ پاکستان میں اسے موضوعِ بحث بناتے ہیں اور بغیر حقائق کو جانے وہ اس بارے میں مختلف قسم کے تبصرے کرتے ہیں۔ ایک ایسا ہی تبصرہ 18 دسمبر کو اسی مؤقر جریدے میں محترم فاروق عالم انصاری نے ’گمشدہ اوراق کی بازیابی‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں کیا۔ کہتے ہیں: ’’لیاقت علی خان نے ماسکو کا دورہ کیوں نہ کیا؟ یہ بات اکثر ہمارے ہاں زیر بحث رہتی ہے۔ وزیراعظم کے ماسکو نہ جانے کی اہم وجہ مذہبی حلقوں کا خوف بھی ہو سکتی ہے۔ قیامِ پاکستان کی مخالفت کے باوجود یہ طبقہ اتنا مؤثر اور طاقتور تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان کا ماسکو کا دورہ رکوانے اور جاگیروں پر ہاتھ ڈالنے پر روکنے میں کامیاب رہے۔۔۔‘‘
لیاقت علی خان ماسکو کیوں نہیں جاسکے اور واشنگٹن کیوں گئے اس بارے میں Pakistan: The Heart of Asia نامی کتاب میں پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی نے اپنے پیش لفظ میں تفصیل سے بات کی ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ یہ کتاب لیاقت علی خان کی ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو انھوں نے مئی اور جون 1950ء کے دوران کیے گئے امریکا اور کینیڈا کے دورے کے موقع پر کیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ہاروڈ یونیورسٹی پریس نے 1951ء میں امریکا سے شائع کی تھی اور پیراماؤنٹ پبلشنگ انٹرپرائز کراچی نے باقاعدہ اجازت لے کر اسے دوسری بار 2011ء میں شائع کیا۔ اب آپ پہلے قریشی صاحب کے پیش لفظ کا اصل اقتباس اور پھر اس کا ترجمہ دیکھیے جو سارے معاملے کو پوری طرح واضح کردے گا:
"The matter of Russian invitation is not covered by these speeches. Briefly, as stated in Hassan Zahir's book Rawalpindi Conspiracy and articles by two highly placed persons General K M Arif and Ambassador Irtiza Hussan who had the access to secret records, it seems that the Russians extended a kind of invitation which they did not pursue seriously.
On 2 June 1949, Ali Aliev, Soviet Charge in Tehran, extended his Government's invitation through Raja Ghazanfar Ali Khan which was immediately accepted. Pakistan suggested 20 August 1949 for a twenty-day visit to study Soviet economic planning, industrial and agricultural development. From this stage onwards the Soviets started to prevaricate on the invitation. Instead of 20 August 1949, USSR suggested 15 August 1949. No plausible explanation was given. Pakistan proposed 18 August 1949 explaining that the Prime Minister would have to be in Pakistan for the Independence Day on 14 August. The Soviet reply was that the visit be postponed to October or November due to the summer vacations of their officials. Subsequently Pakistan suggested 7 November 1949. This time the Soviets replied that Prime Minister should arrive before 7 November 1949 and as a prerequisite, diplomatic relations must be established before that date. Pakistan appointed Mr. Shuaib Qureshi as its first ambassador (for whom the Soviet gave their assent on 28 October 1949). Liaquat sent him to Moscow post haste and suggested that the Prime Minister could arrive in Moscow on 6 November via Tehran. Thereafter the Soviets got very disinterested in this matter that the venue of the contacts was changed from Tehran to New Delhi. The Soviets replied that the visit be postponed till a Russian representative is appointed to Karachi and that 6 November was not suitable, being holidays. No dates were given later.
Why the Soviets cooled down? It remains to be a mystery. After several reminders and a personal visit by our High Commissioner in India to the Soviet Ambassador in Delhi, passports of the Prime Minister and his delegation were returned without Soviet visas. This is where the matter rested.
However, the American invitation was given in December 1949. In contrast to the Soviet invitation was the American invitation; the American Government gave extraordinary high protocol and publicity. The US sent the Assistant Secretary of State George C. McGhee to deliver the invitation of President Harry S. Truman to Liaquat Ali Khan in Peshawar on 10 December 1949, suggesting May 1950 for a visit to Washington."
(روسی دعوت کا معاملہ ان تقاریر میں زیر بحث نہیں آیا۔ اس بارے میں کچھ لوگوں نے مختصراً بات کی ہے جیسا کہ حسن ظاہر کی کتاب ’راولپنڈی سازش‘ میں کچھ بیان کیا گیا ہے اور دو اعلیٰ شخصیات جنرل کے ایم عارف اور سفیر ارتضیٰ حسین کے مضامین میں جنھیں خفیہ ریکارڈ تک رسائی حاصل تھی، ایسا لگتا ہے کہ روسیوں نے دعوت تو دی تھی لیکن پھر انھوں نے سنجیدگی سے اس معاملے کو آگے نہیں بڑھایا۔
2 جون 1949ء کو تہران میں سوویت انچارج علی علیوف نے راجہ غضنفر علی خان کے ذریعے اپنی حکومت کی طرف سے دعوت دی جسے فوراً قبول کر لیا گیا۔ پاکستان نے 20 اگست 1949ء کو سوویت اقتصادی منصوبہ بندی، صنعتی اور زرعی ترقی کا مطالعہ کرنے کے لیے بیس روزہ دورے کی تجویز پیش کی۔ اس کے بعد سے سوویت یونین نے حیلے بہانے شروع کر دیے۔ 20 اگست 1949ء کی بجائے یو ایس ایس آر نے 15 اگست 1949ء کی تجویز دی۔اس سلسلے میں کوئی قابلِ فہم وضاحت نہیں دی گئی۔ پاکستان نے 18 اگست 1949ء کی تجویز پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ وزیر اعظم کا 14 اگست کو یومِ آزادی کے لیے پاکستان میں ہونا ضروری ہے۔ سوویت یونین کا جواب تھا کہ ان کے ہاں موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے دورہ اکتوبر یا نومبر تک ملتوی کر دیا جائے۔ اس کے بعد پاکستان نے 7 نومبر 1949ء کی تجویز دی۔ اس بار سوویت یونین نے جواب دیا کہ وزیر اعظم 7 نومبر 1949ء سے پہلے پہنچ جائیں اور اس تاریخ سے پہلے دوونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں۔ پاکستان نے شعیب قریشی کو اپنا پہلا سفیر مقرر کیا (جن کے لیے سوویت یونین نے 28 اکتوبر 1949ء کو منظوری دی)۔ لیاقت نے فوراً انھیں ماسکو بھیجا اور تجویز دی کہ وزیراعظم تہران کے راستے 6 نومبر کو ماسکو پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے بعد سوویت یونین نے اس معاملے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور رابطوں کا مقام تہران سے بدل کر نئی دہلی کر دیا۔ سوویت یونین نے جواب دیا کہ دورہ اس وقت تک ملتوی کر دیا جائے جب تک کہ کراچی میں روسی نمائندے کی تقرری نہیں ہوتی اور چھٹیوں کی وجہ سے 6 نومبر مناسب تاریخ نہیں۔ بعد میں کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔
سوویت یونین اس معاملے میں ٹھنڈا کیوں پڑ گیا؟ یہ آج تک ایک معمہ ہے۔ بھارت میں ہمارے ہائی کمشنر کی جانب سے دہلی میں تعینات سوویت سفیر کو کرائی گئی کئی یاد دہانیوں اور ایک ذاتی دورے کے بعد وزیر اعظم اور ان کے وفد کے پاسپورٹ بغیر سوویت ویزا کے واپس کر دیے گئے، اور معاملہ یہیں پر رک گیا۔
خیر، امریکا کی طرف سے دعوت دسمبر 1949ء میں دی گئی تھی اور یہ سوویت یونین کی دعوت سے بہت مختلف تھی۔ امریکی حکومت نے اس معاملے کو غیر معمولی اعلیٰ اہمیت دی اور اس کی خوب تشہیر کی۔ امریکا نے 10 دسمبر 1949ء کو صدر ہیری ایس ٹرومین کی جانب سے دعوت کا پیغام دے کر اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ جارج سی مگی کو بھیجا جو پشاور میں لیاقت علی خان سے ملے اور مئی 1950ء میں واشنگٹن کے دورے کی تجویز دی۔)

ای پیپر-دی نیشن