بانی پی ٹی آئی کی سزا، نااہلی برقرار: الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے، بلے کے نشان کا فیصلہ آج
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں بانی پی ٹی آئی کی سیشن کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ سے جاری محفوظ شدہ فیصلہ میں عدالت کا کہنا ہے کہ قانون میں سزا معطلی کے آرڈر میں نظر ثانی یا ترمیم کی گنجائش نہیں، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے سزا معطل ہوسکتی ہے فیصلہ نہیں، سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ سزا معطلی سے فیصلہ معطل نہیں ہوتا، بانی پی ٹی آئی نے سزا معطلی کی درخواست میں فیصلہ معطل کرنے کی استدعا نہیں کی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سزا معطلی تو ہوسکتی ہے لیکن فیصلہ معطل نہیں ہوتا، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر انحصار کیا جائے تو وہاں مختلف صورتحال ملتی ہے، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سزا معطلی کیساتھ فیصلہ بھی معطل ہوسکتا ہے، بھارتی عدالت کے 2001 کے فیصلے کے مطابق واضح استدعا کی روشنی میں فیصلہ معطل کیا جاسکتا ہے، عدالتی حکم میں تبدیلی کا مرکزی گراؤنڈ بظاہر آٹھ اگست کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن ہے، عدالت کے علم میں آیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا بانی پی ٹی آئی کی نااہلی کا نوٹیفکیشن لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، لاہور ہائیکورٹ نے نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے کی درخواست پر نوٹس بھی جاری کررکھے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے روبرو سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن ان فیلڈ تھا، نوٹیفکیشن سے متعلق سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کے دوران کوئی بحث نہیں کی گئی، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بغیر کسی غیر معمولی حالات کے عدالتی فیصلے میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی، ایسے فیصلے موجود ہیں کہ کسی غلطی کی بنیاد پر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے عدالتی حکم میں تبدیلی کی اجازت دی گئی۔ توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آ جانے کے بعد بانی پی ٹی آئی کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔ جبکہ نااہلی بھی برقرار ہے۔ دریں اثناء اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت نے سائفر کیس میں ان کیمرہ ٹرائل کیخلاف بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر اٹارنی جنرل اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کر دیا اور سائفر کیس کا ٹرائل فوری روکنے کی استدعا منظور نہیں کی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں۔ عدالت نے سائفر کیس ٹرائل مکمل کرنے کے لیے چیف جسٹس کی جانب سے چار ہفتوں کی ڈیڈ لائن پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چار ہفتوں کا وقت تو ہم عام سے کیسز میں بھی نہیں دیتے۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت پیش ہوئے اور کہا کہ پراسیکیوشن کی درخواست پر عدالت نے ٹرائل ان کیمرہ کرنے کا فیصلہ سنایا اور فیصلے میں لکھا کہ سائفر کیس کی کوریج پر بھی پابندی ہوگی کیونکہ عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ سے دوست ممالک کیساتھ تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی سائفر کیس کی کارروائی پبلش کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے، ملزمان کے اہل خانہ کو ٹرائل میں بیٹھنے کی مشروط اجازت ہے لیکن انہیں بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ عدالتی کارروائی سے متعلق بات نہیں کرسکتے۔ عدالت نے استفسار کیا اگر فرد جرم عائد ہوگئی ہے تو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ فرد جرم عائد ہو گئی ہے؟۔ وکیل نے کہا بالکل نہیں، انہیں پابند کیا ہے کہ وہ عدالتی کارروائی نہیں بتا سکتے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عمران خان کے عمل نے سائفر سکیورٹی کو متاثر کیا۔ انہوں نے یہ الزام تو لگایا مگر کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ سکیورٹی کیا تھی؟۔ متعلقہ حکام بتاتے ہیں کہ سائفر کے کوڈز ہر کچھ ماہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ کیا عدالت نے ان کیمرا پروسیڈنگ کی درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا؟ ملزمان پر فرد جرم کب عائد ہوئی؟۔ عدالت نے کہا اس کیس میں ایک مسئلہ ہورہا ہے، ٹرائل کوئی وکیل کررہا ہے اور اپیلیں کوئی دوسرا وکیل۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا مسٹر پنجوتھہ یہاں ہیں یہ ٹرائل کررہے ہیں انہوں نے بتایا ہے 14 دسمبر کو فرد جرم عائد ہوئی۔ 13دسمبر کو ان کیمرہ کی درخواست پر 14 دسمبر کے لیے نوٹس ہوا تھا۔ ڈائریکشن کیس ہونے کے باعث ٹرائل کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت چل رہی ہے۔ عدالت نے پوچھا یہ ڈائریکشن کیس کیسے ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت مسترد کرتے ہوئے سنگل بینچ نے چار ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈائریکشن دی جس پر جج نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا واقعی یہ سچ ہے کہ چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے؟۔ چار ہفتوں کا وقت تو ہم عام سے کیسز میں بھی نہیں دیتے۔ سلمان اکرم راجہ نے سائفر کیس کے ٹرائل پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر رہے ہیں پہلے انہیں سن لیں۔ بعد میں سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔
پشاور+اسلام آباد(بیورورپورٹ+خصوصی رپورٹر) پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیسز کے خلاف تحریک انصاف کی درخواستوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آج22 دسمبر کو ہی قانون کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دے دیا۔ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان ’’بیٹ ‘‘کے کیسز سے متعلق سماعت کے دوران بیرسٹر گوہر علی اور الیکشن کمیشن کا وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔کیس کی سماعت جسٹس عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد نے کی۔عدالت کی ابتدائی کارروائی کے دوران بیرسٹر گوہر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان نہ دینے کی وجوہات نہیں بتائیں، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ فعال ہے، آپ نے وہاں سے کیوں رجوع نہیں کیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی صوبائی کابینہ کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اس لئے بھی نہیں گئے کہ رہنماؤں کی گرفتار کا خدشہ تھا۔ا نہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آج جمعے تک نشان نہ ملا تو ہمارے امیدوار آزاد تصور ہوں گے، اگر انٹرا پارٹی انتخابات کو تسلیم نہ کیا گیا تو انتخابی نشان بلا نہیں ملے گا۔بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن معاملات کو تاخیر کا شکار کرتا آرہا ہے، ان کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے، کیا 32 سوالات کسی اور پارٹی سے بھی پوچھے گئے؟۔جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کو نہیں لگتا ہے الیکشن کمیشن کو شکایات پر خود فیصلہ کرنا چاہیے۔پشاور ہائی کورٹ نے بعد ازاں کچھ دیر قبل محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 22 دسمبر سے پہلے فیصلے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن فیصلہ دے۔ بیرسٹر گوہر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جلد کوئی آرڈر کردیں کیونکہ کل جمعہ آخری روز ہے۔بعدازاں الیکشن کمیشن کے وکیل محسن کامران نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات متنازع ہے۔ درخواست گزاروں نے انتخابات کے نتائج شائع نہ ہونے کو چیلنج کیا ہے۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔بعد ازاں مختصر فیصلہ سناتے الیکشن کمیشن کو آج 22 دسمبرتک فیصلے کرنے کا حکم دیا، عدالت نے کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن فیصلہ دے۔دوسری جانب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) گوہر خان نے صاف شفاف انتخابات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔عام انتخابات شفاف اور لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کیلئے پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ تحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ اور شفاف انتخابات کیلئے فریقین کو ہدایات جاری کرے، ہمارے کارکنان اور رہنماؤں کو ہراساں کرنے سے بھی روکا جائے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھینے جارہے ہیں،ہماری جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کا مساوی حق دیا جائے۔
اسلام آباد (وقار عباسی /وقائع نگار) عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنائی گئی پانچ سال کی نااہلی وتین سال کی قید و جرمانہ کی سزا کا اسلام آباد ہائی کورٹ سے فیصلہ آگیا ہے جس میں عدالت عالیہ کے دو رکنی بنچ نے عمران خان کی سزا معطلی کی استدعا مسترد کردی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے سابق چیئرمین عمران خان آئندہ سال 2024کے عام انتخابات میں عملی طورپر حصہ نہیں لے سکیں گے ان کی نااہلی برقرار ہے ان کی جانب سے لاہور ، میانوالی اور اسلام آباد کے تین حلقوں سے کاغذات نامزدگی حاصل کیے گئے تاہم اب اگر ان کے کاغذات نامزدگی جمع ہوتے ہیں تو وہ پہلے مرحلے پر ہی اعتراض پر مسترد کردئیے جائیں گے عمران خان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رواں سال اگست میں توشہ خانہ کے تحائف فروخت کرنے اور ان سے حاصل ہونے والے 140ملین روپے کی رقوم کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر آئین کی سیکشن 62ایف پی کے تحت پانچ سال کے لیے نااہل تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد انہیں لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا ۔عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ فیصلہ محفوظ کیا تھا جو گزشتہ روز مسترد کیے جانے کی بنیاد پر سناد یا گیا ہے فیصلے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے عمران خان اب الیکشن میں خود حصہ نہیں لے سکیں گے تاہم میاں نوا ز شریف کی تاحیات نااہلی کا معاملہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد بظاہر تو ختم ہو گیا ہے تاہم آئین کی دفعہ 62ایف ون کی سپریم کورٹ آف پاکستان سے کی جانے والی تشریح اور انتخابی ایکٹ میں ترمیم سے پیدا ہونے والے ابہام پر سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ازسرنو اٹھا لیا ہے جس پر جنوری میں فیصلہ متوقع ہے ۔