• news

بجھ گئی شمع امید 

سابق امریکی صدر ٹرمپ کی نااہلی کی خبر امریکہ سے زیادہ پاکستان کے بعض حلقوں میں سخت غم و غصہ کی فضا میں سنی گئی۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی شکست کے بعد اپنے حامیوں سے کپیٹل ہل اور امریکی پارلیمنٹ کی عمارتوں پر حملے کرائے تھے اور بعدازاں یہ کہہ کر مکر گئے تھے کہ وہ میں کب تھا، وہ تو میرے حامی تھے۔ اس پر انہیں انہی کے کئے گئے ٹویٹ دکھائے گئے جن میں وہ ان حملوں کی تائید کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔ 
ٹرمپ نے سول عمارتوں پر حملے کرائے تھے، نااہل ہو گئے اور اگر فوجی عمارتوں پر کرائے ہوتے تو اب تک کورٹ مارشل زدہ ہو چکے ہوتے۔ امریکہ میں یہ قانون ہے، باقی سب جگہ بھی یہی قانون ہے لیکن پاکستان میں بتایا جاتا ہے کہ فوجی عمارتوں پر حملے محض ایک ایسی غلطی ہیں جس کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دینا چاہیے۔ 
خیر، ٹرمپ کی ’’نااہلی‘‘ پر پاکستان میں بعض حلقے صدمے کی کیفیت میں ہیں اور اس کی وجہ ٹرمپ سے ہمدردی نہیں بلکہ اس شعلہ امید کا بجھ جانا ہے جو اب تک فروزاں تھی۔ اس حلقے کے ایک یوٹیوب چینل میں، پچھلے ہفتے کی بات ہے، ایک ہمہ صفت موصوف کہہ رہے تھے کہ اگلا صدارتی الیکشن ٹرمپ نے جیت جانا ہے، وہ حکومت میں آتے ہی پاکستانیوں کو حقیقی آزادی دلائے گا اور صاحب امربالمعروف کو پھر سے مسند ارشاد پر متمکن فرمائے گا جس کے بعد صاحبِ امر بالمعروف جملہ ہرچند ان کو ان کے کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور حقیقی آزادی کا دور دورہ جاری فرمائیں گے۔ 
بہرحال، اب یہ شمع امید بھی بجھ چکی۔ اس دوران قارئین انتظار فرمائیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ’’لیول پلے انگ فیلڈ‘‘ کی فراہمی کا مطالبہ کب آتا ہے۔ 
____
پی ٹی آئی کے صدر پرویز الٰہی نے انتخابات میں شیخ رشید کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
شیخ صاحب اب پرامید ہو سکتے ہیں۔ انہیں الیکشن جیتنے کیلئے چھ سات ووٹوں کی کمی تھی، جو پرویز الٰہی کے اس حکم نامے کے بعد پوری ہو جائے گی۔ لیکن اس دوران گریٹ خان کے اس حکم کا کیا بنے گا جس میں انہوں نے پارٹی کو ہدایت کی تھی کہ شیخ جی کو ووٹ نہیں دینا، ہم اپنا امیدوار کھڑا کریں گے۔ 
پرویز الٰہی کا حلقہ کہہ سکتا ہے کہ گریٹ خان اب پارٹی کے چیئرمین نہیں رہے، پرویز الٰہی صدر ہیں، چیئرمین نہیں رہے تو کیا ہوا، صدر ہے اور اب صدر کا حکم چلے گا۔ 
____
ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کو اب اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ بائیکاٹ کے حامیوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ 
فلسطین کے معاملے میں پاکستانی عوام بالعموم لاتعلق رہے ہیں۔ مڈل آف دی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس البتہ اسرائیل کی سخت دشمن اور فلسطینیوں کی جذباتی حد تک حامی رہی ہے لیکن یہ دونوں کلاسیں مل کر اکثریت نہیں بنتیں۔ اکثریت ان غریب افراد کی ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اور جنہیں اتنی فرصت ہی نہیں کہ کسی بھی ایسے مسئلے پر بنیادی معلومات حاصل کر سکیں۔
مذہبی جماعتوں کی طرف سے اسرائیل مخالف بڑے بڑے اجتماعات پر مت جائیے، یہ اجتماعات زیادہ تر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر مسلک کے لوگ بڑی تعداد میں ہیں اور ہر مسلک کے قائدین اس بات میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں کہ بڑے اجتماعات کر کے اپنی طاقت کو دوسروں سے زیادہ دکھائیں۔ 
لیکن یہ سارے طبقات ’’بائیکاٹ‘‘ والی مہم میں زیادہ موثر نہیں۔ اسرائیلی مال بہت مہنگا ہے اور ہماری اشرافیہ اسی مال کو ترجیح دیتی ہے۔ ہماری اشرافیہ کی رہائشی سوسائٹیاں بظاہر پاکستان کے رقبے پر قائم ہیں اور یہ اشرافیہ خود بھی، مبینہ طور پر ، پاکستانی نسل اور قوم سے ہی تعلق رکھتی ہے لیکن یہ سارے رہائشی علاقے دراصل سرزمین پاکستان پر امریکہ کے سفارتی جزیرے ہیں اور ان میں رہنے والے امریکہ کے اعزازی سفارت کار، امریکی ’’جزیروں‘‘ سے یہ توقع کرنا کہ وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے، خلاف عقل بات ہے۔ 
____
بحیرہ قلزم کے حوالے سے ایک بڑا ’’بلڈ اپ‘‘ ہو رہا ہے لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ آج کے تمام اخبارات اس کی خبروں سے خالی تھے۔ اگرچہ اتنی زیادہ حیرت بھی نہیں کہ اس سے ایک روز قبل بظاہر ملک کے سب سے کثیر الاشاعت اخبار نے ’’اسرئیلی بمباری سے مزید ایک سو فلسطینی شہید‘‘ کی سنگل کالمی خبر صفحہ 3 پر لگائی تھی۔ 
بلڈ اپ یہ ہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے شمالی یمن پر بمباری کیلئے سمری تیار کر لی ہے۔ سنگاپور میں لنگر انداز امریکی سٹرائیک گروپ کے جملہ طیارہ بردار اور جنگی، حملہ آور بحری جہاز شمالی یمن کی طرف روانہ ہو گئے ہیں اور 
11 ملکوں پر مشتمل ایک میرین فورس کے قیام کا اعلان ہو چکا ہے جس میں مسلمان ملک بھی شامل ہیں اور جو شمالی یمن پر حملہ آور ہو گی۔ ان خبروں کے جواب میں کل شمالی یمن نے صنعا میں بڑے میزائلوں کی پریڈ بھی کی۔ 
شمالی یمن پر حملہ بظاہر ناگزیر نظر آتا ہے۔ لیکن یہ حملہ حوثیوں کی میزائل باری نہیں روک سکے گا۔ پھر کیا ہو گا؟۔ عراق اور افغانستان کی طرح پہلے بمباری، پھر زمینی قبضے کی داستان دہرائی جائے گی۔ فرانس کی وزیر خارجہ نے دو روز پہلے اپنے پر از تشویش بیان میں یہ خبر بریک کی تھی کہ غزہ کا تنازعہ پھیلنے کا خطرہ ہے۔ 
بہرحال، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حوثی ایک دم ٹھنڈے پڑ جائیں، ہم نے ترکی اور ایران کے ’’سخت خطرناک‘‘ بیانات بڑی مسرت کے ساتھ سنے تھے جب غزہ پر اسرائیلی یلغار کو محض دو دن ہوئے تھے۔ ترکی نے کہا تھا، ہم اس جارحیت پر خاموش نہیں رہیں گے، عملی کارروائی کریں گے اور ایران نے کہا تھا کل تک (جسے گزرے اب سوا دو مہینے ہو گئے) غزہ پر بمباری بند نہ ہوئی تو ہم اسرائیل پر ایسا بڑا میزائل ماریں گے کہ اس کا تو بس خاتمہ ہی ہو جائے گا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ ایران نے تین سے زیادہ بار امریکہ کو یقین دلایا، ایک بار اقوام متحدہ میں بھی کہ، ہمارا غزہ کے تنازعے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ رہا ترکی، تو وہ ’’ارطغرل‘‘ کے بعد کسی تاریخی شخصیت پر ڈرامے کا سکرپٹ لکھنے میں مصروف ہے۔ راوی دونوں ملکوں میں چین ہی چین لکھتا ہے اور ہر دو ملکوں کے چین میں کوئی خلل پڑا ہو، ایسی کوئی خبر عرصے سے نہیں آئی۔

ای پیپر-دی نیشن