پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں !!!!!
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے جب حضرت معاذ ؓ کو (امیر یا قاضی بنا کر) یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم (یہود و نصاری) کے پاس جا رہے ہو لہٰذا (پہلے تو تم) انہیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد ؐاللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ دعوت کو قبول کرلیں تو پھر تم انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اسے مان جائیں تو پھر اس کے بعد انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے (یعنی ان لوگوں سے جو مالک نصاب ہوں) لی جائے گی اور ان کے فقراء کو دے دی جائے گی۔ اگر وہ اسے مان جائیں تم یہ یاد رکھنا کہ ان سے زکوٰۃ میں اچھا مال لینے سے پرہیز کرنا یعنی چھانٹ کر اچھا مال نہ لینا بلکہ ان کے مال کو تین حصوں میں تقسیم کرنا اچھا، برا، درمیانہ لہٰذا زکوٰۃ میں درمیانہ مال لینا نیز تم (زکوۃ لینے میں غیر قانونی سختی کر کے یا ان سے ایسی چیزوں کا مطالبہ کر کے جو ان پر واجب نہ ہوں اور یا انہیں زبان یا ہاتھ سے ایذاء پہنچا کر) ان کی بد دعا نہ لینا کیونکہ مظلوم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس دعا کی قبولیت کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ؐنے فرمایا جو شخص سونے اور چاندی (کے نصاب) کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کیلئے آگ کے تختے بنائے جائیں گے (یعنی تختے تو سونے اور چاندی کے ہوں گے مگر انہیں آگ میں اس قدر گرم کیا جائے گا کہ گویا وہ آگ ہی کے تختے ہوں گے اسی لئے آپ نے آگے فرمایا کہ وہ تختے دوزخ کی آگ میں گرم کئے جائیں گے اور ان تختوں سے اس شخص کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ داغی جائے گی پھر ان تختوں کو (اس بدن سے) جدا کیا جائے اور آگ میں گرم کر کے پھر لایا جائے گا (یعنی جب وہ تختے ٹھنڈئے ہوجائیں گے تو انہیں دوبارہ گرم کرنے کیلئے آگ میں ڈالا جائے گا اور وہاں سے نکال کر اس شخص کے بدن کو داغا جائے گا) اور اس دن کی مقدار کہ جس میں یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا پچاس ہزار سال کی ہوگی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب ختم ہوجائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ عذاب تو نقدی یعنی سونے چاندی کے بارے میں ہوگا اونٹ کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کا کیا حشر ہوگا؟ آپ نے فرمایا جو شخص اونٹ کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے اور اونٹوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جس روز انہیں پانی پلایا جائے ان کا دودھ دوہا جائے تو قیامت کے دن اس شخص کو اونٹوں کے سامنے ہموار میدان میں منہ کے بل اوندھا ڈال دیا جائے گا اور اس کے سارے اونٹ گنتی اور مٹاپے میں پورے ہوں گے مالک ان میں سے ایک بچہ بھی کم نہ پائے گا یعنی اس شخص کے سب اونٹ وہاں موجود ہوں گے۔ حتی کہ اونٹوں کے سب بچے بھی ان کے ساتھ ہوں گے پھر یہ کہ وہ اونت خوب فربہ اور موٹے تازے ہوں گے تاکہ اپنے مالک کو روندتے وقت خوب تکلیف پہنچائیں چناچہ وہ اونٹ اس شخص کو اپنے پیروں سے کچلیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے جب ان اونٹوں کی جماعت روند کچل اور کاٹ کر چلی جائے تو دوسری جماعت آئے گی یعنی اونٹوں کی قطار روند کچل کر چلی جائے گی تو اس کے پیچھے دوسری قطار آئے گی اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جس دن یہ ہوگا اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کردیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! گائے اور بکریوں کے مالک کا کیا حل ہوگا؟ آپ نے فرمایا جو شخص گائیوں اور بکریوں کا مالک ہو اور ان کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اسے ہموار میدان میں اوندھے منہ ڈال دیا جائے گا اور اس کی گایوں اور بکریوں کو وہاں لایا جائے گا جن میں سے کچھ کم نہیں ہوگا ان میں سے کسی گائے بکری کے سینگ نہ مڑے ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور نہ وہ منڈی یعنی بلا سینگ ہوں گی یعنی ان سب کے سروں پر سینگ ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور سالم ہوں گے۔ تاکہ وہ اپنے سینگوں سے خوب مار سکیں چناچہ وہ گائیں اور بکریاں اپنے سینگوں سے اپنے مالک کو ماریں گی اور اپنے کھروں سے کچلیں گی اور جب ایک قطار اسے مار کچل کر چلی جائے گی تو دوسری قطار آئے گی اور اپنا کام شروع کر دے گی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور جس دن یہ ہوگا اس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! گھوڑوں کے بارے میں کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ گھوڑے جو آدمی کیلئے گناہ کا سبب ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے جنہیں اس کے مالک اظہار فخر و غرور اور مال دار اور ریاء کیلئے اور مسلمانوں سے دشمنی کے واسطے باندھے چناچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کیلئے گناہ کا سبب بنتے ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کیلئے پردہ ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں اس کے مالک نے اللہ کی راہ میں کام لینے کیلئے باندھا اور ان کی پیٹھ اور ان کی گردن کے بارے میں وہ اللہ کے حق کو نہیں بھولا چناچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کیلئے پردہ ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کیلئے ثواب کا سبب و ذریعہ بنتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں ان کا مالک اللہ کی راہ میں لڑنے کیلئے مسلمانوں کے واسطے باندھے اور چراگاہ و سبزہ میں رکھے چناچہ جب وہ گھوڑے چراگاہ و سبزہ سے کچھ کھاتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے کھایا یعنی گھاس وغیرہ کی تعداد کے بقدر اس کیلئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ ان گھوڑوں کی لید اور ان کے پیشاب کے بقدر بھی اس کیلئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں کیونکہ لید اور پیشاب بھی گھوڑے کی زندگی کا باعث ہیں اور گھوڑے رسی توڑ کر ایک یا دو میدان دوڑتے پھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے قدموں کے نشانات اور ان کی لید جو وہ اس دوڑنے کی حالت میں کرتے ہیں کی تعداد کے برابر اس شخص کیلئے نیکیاں لکھتا ہے اور جب وہ شخص ان گھوڑوں کو نہر پر پانی پلانے کیلئے لے جاتا ہے اور وہ نہر سے پانی پیتے ہیں اگرچہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہ ہو، اللہ تعالیٰ گھوڑوں کے پانی پینے کے بقدر اس شخص کیلئے نیکیاں لکھتا ہے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا گدھوں کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا لیکن تمام نیکیوں اور اعمال کے بارے میں یہ آیت جامع ہے (ترجمہ ) یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر نیکی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا اور جو شخص ایک ذرہ کے برابر برائی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا۔ (یعنی مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے کو نیک کام کیلئے جانے کے واسطے اپنا گدھا دے گا تو ثواب پائے گا اور اگر برے کام کیلئے دے گا تو گناہگار ہوگا)۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و زر دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن اس کا مال وزر گنجے سانپ کی شکل میں تبدیل کیا جائے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے پھر وہ سانپ اس شخص کے گلے میں بطور طوق ڈالا جائے گا اور وہ سانپ اس شخص کی دونوں باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ ) وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں یہ گمان نہ کریں۔
حضرت ابوذر ؓ نبی کریم ؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا جس شخص کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں اور وہ ان کا حق یعنی زکوٰۃ نہ دے تو کل قیامت کے دن اس کے وہ مویشی اس حال میں لائے جائیں گے کہ بہت بڑے بڑے اور فربہ شکل میں ہوں گے اور پھر وہ اس شخص کو اپنے پیروں سے روندیں کچلیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے جب اسے مار کر کچل کر آخری جماعت چلی جائے گی تو پھر پہلی جماعت لائی جائے گی یعنی اسی طرح سب جانور پھر پلٹ کر روندیں گے اور ماریں گے یہ سلسلہ ایسے ہی وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ لوگوں کا حساب کتاب لے کر ان کا فیصلہ نہ کردیا جائے گا۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا جب (امام وقت کی طرف سے) زکوٰۃ وصول کرنے والا (کہ جسے اصطلاح شریعت میں ساعی اور عامل کہتے ہیں) آئے تو وہ زکوٰۃ وصول کر کے تمہارے پاس سے اس حال میں واپس جائے کہ وہ تم سے راضی و خوش ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے حضرت عمر کو زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے مقرر فرمایا کسی شخص نے آ کر خبر دی کہ ابن جمیل خالد ابن ولید اور حضرت عباس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی یہ سن کر آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ ابن جمیل نے تو زکوٰۃ دینے سے اس لئے انکار کیا کہ وہ پہلے مفلس و قلاش تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اسے دولت مند بنادیا خالد بن ولید کی بات یہ ہے کہ ان پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو کہ اصل میں ان پر زکوٰۃ واجب ہی نہیں ہے۔ مگر تم ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے خواہشمند ہو کیونکہ انہوں نے تو اپنی زرہیں اور سامان جنگ یعنی ہتھیار، جانور اور جنگ کا دوسرا سامان اللہ کی راہ میں یعنی جہاد کیلئے وقف کر رکھا ہے لہٰذا تم جو ان کے مال و اسباب کو تجارت کا مال سمجھتے ہو وہ غلط ہے اور جہاں تک حضرت ابن عباس کا تعلق ہے تو بات یہ ہے کہ ان کی زکوٰۃ مجھ پر ہے اور نہ صرف اسی سال کی بلکہ اس کے مثل اور آئندہ سال کی بھی۔ پھر فرمایا کہ عمر! کیا تم نہیں جانتے کہ کسی شخص کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے لہٰذا تم لوگ عباس کو میرے باپ کی جگہ سمجھو ان کی تعظیم و توقیر کرو اور انہیں کسی بھی طرح رنج و تکلیف نہ پہنچاؤ۔
حضرت ابوحمید ساعدی ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو کہ جس کا نام ابن لتیبہ تھا زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چناچہ جب وہ شخص زکوٰۃ وصول کر کے مدینہ واپس آیا تو مسلمانوں سے کہنے لگا کہ اتنا مال تو تمہارا ہے یعنی یہ مال زکوٰۃ میں وصول ہوا ہے اس کے مستحق تم ہو اور یہ اتنا مال تحفہ کے طور پر مجھے دیا گیا ہے جب نبی کریم ؐ نے یہ سنا تو آپ ؐ نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور اس کے بعد فرمایا کہ بعد ازاں! میں تم سے چند آدمیوں کو ان امور کیلئے مقرر کرتا ہوں جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے حاکم بنایا چناچہ تم میں سے ایک شخص جسے میں نے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر کیا ہے اپنا کام کر کے آتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ تمہارے لئے ہے اور یہ مال مجھے تحفہ میں دیا گیا ہے اور اس سے پوچھو تو وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا کہ تحفہ دینے والے اسے گھر ہی بیٹھے تحفہ بھیج دیتے تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں؟ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے! یاد رکھو تم میں سے جو شخص کوئی بھی چیز لے گا اسے وہ قیامت کے دن رسوائی و زلت کے طور پر اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اگر وہ اونٹ ہوگا کہ جس کو اس نے بغیر استحقاق لیا ہوگا تو اس کی آواز ہوگی اگر وہ بیل ہوگا تو اس کی آواز ہوگی اور اگر وہ بکری ہوگی تو اس کی آواز ہوگی یعنی وہ دنیا میں جو بھی چیز بغیر استحقاق کے لے گا وہی چیز قیامت کے دن اس کی گردن پر سوار ہوگی اور بولتی ہوگی اس کے بعد آنحضرت ؐ نے اپنے دونوں دست مبارک اتنے اونچے اٹھائے کہ ہم نے آپؐ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا اے پروردگار! تو نے جو کچھ فرمایا میں نے لوگوں تک پہنچا دیا ہے اے پروردگار میں نے لوگوں تک پہنچا دیا۔ (بخاری ومسلم) اور خطابی نے آنحضرت ؐ کے ارشاد گرامی وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا اور تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں؟ کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حرام کام کیلئے جس چیز کو وسیلہ بنایا جائے گا تو وہ وسیلہ بھی حرام ہوگا نیز اگر کسی ایک عقد (معاملہ) کو دوسرے عقد (مثلاً خریدو فروخت، ہبہ اور نکاح وغیرہ) سے متعلق کیا جائے تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ آیا ان معاملوں کا علیحدہ علیحدہ حکم ان کے ایک ساتھ متعلق ہونے کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں! اگر ہے تو درست ہوگا اور اگر نہیں ہے تو درست نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے انہیں پھیلانے اور جو لوگ سنتوں کو پھیلانے کے لیے کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق عطاء فرما۔ آمین