ملکہ ترنم نور جہاں
وقاراشرف
ملکہ ترنم نورجہاں کومداحوں سے بچھڑے23برس بیت گئے مگر ان کی سُریلی آواز آج بھی ان کے گیت سُننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہے۔ بابابُلھے شاہ کی نگری قصور میں آنکھ کھولنے والی اللہ وسائی نے نورجہاں کے نام سے اداکاری اورگلوکاری دونوں میدانوںمیں شُہرت پائی،اپنے طویل کیریئر کے دوران اُردو،پنجابی، فارسی، بنگالی، پشتو، سندھی اور ہندی میں تقریباً 20 ہزار سے زائد گیت گائے جنہوںنے ہرطرف دھوم مچا دی۔تقریباً 40 فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اورتمغہ امتیاز و پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔65ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اپنے نغموں سے عوام اورفوجی جوانوں کا خون گرمائے رکھا۔ان کے گائے ہوئے ترانوں میں اے وطن کے سجیلے جوانوں،رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو،میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلاکرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے جیسے یادگار گیت آج بھی اہل وطن کے دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔
21 ستمبر1926ء کو قصور میں پیدا ہونے والی اللہ وسائی کو چار سال کی عمرمیں موسیقی کی تعلیم کے لیے خاندانی اُستاد غلام محمد کے سپرد کیاگیاتھا۔سات برس کی عمر میں انہیں موسیقی کی اتنی سمجھ آ چکی تھی کہ بڑی بہن عیدن اور حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر گانے لگیں ،ابتدا میں وہ مختار بیگم، اختری بائی فیض آباد اور دوسری گلوکارائوں کے مقبول گیت گایا گاتی تھیں۔آٹھ نو برس کی عمر میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا جہاں اسٹیج پر پرفارم کرنا بھی شروع کردیا یہیں انہیں موسیقار جی اے چشتی ملے جنہوں نے نورجہاں کی آواز کو مزید سنوارا۔لاہور میں کامیابی کے بعد یہ بہنیں بھائی محمد شفیع کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں جہاں اس وقت مختاربیگم کاہرطرف طوطی بول رہا تھا،مختار بیگم کو ان بہنوں کی آوازبہت پسند آئی اور ان کی سفارش پر ہی انہیں کے ڈی مہرا کی فلم کمپنی میں ملازمت مل گئی۔اسی کمپنی نے اللہ وسائی کا نام بے بی نور جہاں رکھا جبکہ عیدن اور حیدر بائی اپنے اصلی نام کے ساتھ ہی گاتی رہیں۔تینوں بہنوں نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس کا نام ’’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘‘ تھا،اس فلم میں مرکزی کردار پشپا رانی اور اُستاد مبارک علی خان نے اداکیے تھے۔نور جہاں نے اس فلم میں ایک گانے ’’لنگھ آجا پتن چناں دا او یار‘‘پر پرفارم کیا تھا۔اس کے بعد انہیں فلموں میں ثانوی نوعیت کے کردار ملتے رہے ، چند فلموں میں گائیکی کا موقع بھی ملا جن میں مصر کا ستارہ،مسٹر اینڈ مسز بمبئی،ناری راج،ہیر سیال اورسسی پنوں شامل تھیںلیکن جس فلم سے نورجہاں کو پہچان ملی وہ دل سکھ ایم پنچولی کی فلم ’’گل بکاؤلی‘‘ تھی اس فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے جبکہ نغمہ نگار ولی صاحب تھے۔ اس فلم کے لیے جب نورجہاں نے اپنا پہلا نغمہ صدا بند کروایا تو ہر طرف اس گانے کی دھوم مچ گئی جس کے بول تھے’’شالا جوانیاں مانیں‘‘۔1939ء میں یہ فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے نورجہاں کے نغمات اور اداکاری سے سجی مزید فلمیں نمائش کے لیے پیش ہونے لگیں جن میں ’’یملا جٹ‘‘ اور’’چودھری‘‘ شامل تھیں۔’’خزانچی‘‘ کے ایڈیٹر شوکت حسین رضوی تھے جن کے کام سے خوش ہو کر سیٹھ دل سکھ ایم پنچولی نے انہیں اردو سوشل فلم ’’خاندان‘‘ بنانے کے لیے کہاجس میںمرکزی کردارکے لیے نورجہاں کا انتخاب کیا گیا،اس فلم کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی جبکہ اس کے نغمات ڈی این مدھوک نے لکھے تھے اورانہیں اس کے لئے خصوصی طورپربلایاگیاتھا۔
ماسٹر غلام حیدر نے ’’گل بکاؤلی‘‘ کے کامیاب تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے’’خاندان‘‘ کے زیادہ تر گانوں کو نورجہاں کی آواز سے آراستہ کیا،اسی فلم کی عکس بندی کے دوران نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔شوکت رضوی اور نورجہاں کی شادی کے بعد دونوں کے لیے کامیابی کی راہیں وا ہوگئیں۔’’خاندان‘‘ کے بعد اگلے دو تین برسوں میں نورجہاں کی بطور اداکارہ و گلوکارہ کئی فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیں جن میں نوکر،دہائی،نادان، دوست اور لال حویلی شامل تھیں۔ نورجہاں نے 1932ء سے 1947ء تک 127 گانے گائے جبکہ 69 فلموں میں اداکاری کی۔انہو ں نے 12 خاموش فلموں بھی کام کیا۔ نورجہاں نے جن فلموں میں کام کیا ان میں سے 55 فلمیں بمبئی، 8 کلکتہ، 5 لاہور اور 1 فلم رنگون برما میں بنی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد وہ شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے لاہور منتقل ہوگئیں،انہوں نے بطور اداکارہ گلنار،چن وے،دوپٹہ،پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب جیسی فلموںمیں اداکاری کے جوہردکھائے۔قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں فلم’’چن وے‘‘سے پاکستان کی فلمی صنعت میں نئی جان ڈال دی۔ چن وے نورجہاں کی پاکستان میں بطور ہیروئن پہلی فلم تھی اور اِس کی موسیقی فیروز نظامی کی تھی۔ لاہور میں یہ فلم ریجنٹ سینما پر 18 ہفتے تک بزنس کرتی رہی۔’’چن وے‘‘ کی ہدایات بھی نورجہاں نے دی تھیںبعدازاںانہوں نے اداکاری کو خیرآباد کہہ کر خودکو گلوکاری تک محدود کرلیاتھا۔
1952ء میں نورجہاں کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی جس کے ہدایت کار سبطین فضلی اور پیش کار اسلم لودھی تھے، اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے خصوصاً نورجہاں کا گایاہوا یہ گانا’’سب جگ سوئے ہم جاگیںتاروں سے کریں باتیں‘‘بہت مقبول ہواتھا۔1957ء میں فلم ’’انتظار‘‘پر انہیں صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔
سید شوکت حسین رضوی سے نورجہاں کی ایک بیٹی ظل ہما اور دوبیٹے اکبر رضوی ،اصغر رضوی تھے۔شوکت رضوی سے طلاق کے بعد نورجہاں نے اعجاز درانی سے شادی کی مگر یہ بھی اختلافات کی وجہ سے نہ چل سکی۔ایک اندازے کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے۔نورجہاں کے بارے میں لکھے گئے اکثر مضامین میں بتایا جاتا ہے کہ نور جہاں کو ملکہ ترنم کا خطاب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے دیا تھا جبکہ زخمی کانپوری کے مطابق نورجہاں کو یہ خطاب ان کے مداحوں نے فلم انتظار کے گیتوں پر دیا تھا۔ بطور گلوکارہ ان کی آخری فلم’’گبھرو پنجاب دا’’2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔ نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو 74 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں اور کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، ان کے جنازے میں لگ بھگ چار لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔