• news

’’اے عظیم اُلشان قائد! تیری عظمت کو سلام!‘‘

معزز قارئین !۔ 25 دسمبر کو ہم (اہلِ پاکستان ) اور بیرون ملک فرزندان و دُخترانِ پاکستان ، بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی 147 ویں سالگرہ مناتے ہیں۔جب متحدہ ہندوستان کے مسلمان ، قائداعظم کی قیادت اور ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے پرچم تلے اپنے لئے نیا وطن (پاکستان ) حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے تھے تو شیعہ، سُنی دوسرے مسالک کے عُلماء ’’داراُلعلوم دیو بند‘‘ ہی کے مولانا اشرف علی تھانوی‘ علاّمہ شبیر عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع اور اُنکے پیروں کاروں نے بھی قیام پاکستان کی بھرپور حمایت کی تھی ۔ قائداعظم سے کسی صحافی نے پوچھا تھا کہ ’’ آپ شیعہ ہیں یا سُنی؟‘‘۔ تو آپ نے جواب دِیا کہ ’’مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں ، لیکن ہم سب مسلمان حضرت علی مرتضیٰ ؓ  کا یوم ولادت اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں!‘‘۔ 
ہندوئوں کی متعصب جماعت ’’انڈین نیشنل کانگری‘‘ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے قیام پاکستان کی سخت مخالفت کی تھی۔ ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو ؔ مسٹر موہن داس کرم چند گاندھیؔ کے چرنوں میں بیٹھ کر  ’’داراُلعلوم دیو بند‘‘ ہی کے کے ایک گروپ ’’جمعیت عُلمائے ہند‘‘ نے (جنہیں کانگریسی مولوی کہا جاتا تھا) ۔ نہ صِرف قیام پاکستان کی مخالفت کی بلکہ قائداعظم کے خلاف کُفر کا فتویٰ دے کر بھی خُود کو بدنام کرلِیا۔ 
اِس پر ’’مصّورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبال نے فرمایاکہ 
’’ دِینِ مُلاّ، فی سبیل اللہ فساد !‘‘
14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا تو  قائداعظم نے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردیا تھا۔ قائداعظم نے تو قیام پاکستان کی جدوجہد میں برابر کی شریک اپنی ہمشیرہ، محترمہ فاطمہ جناح کو بھی حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ 
معزز قارئین!  قیام پاکستان کے بعد بھی کانگریسی مولویوں کی باقیات ؔ کے سرخیل (مولانا فضل اُلرحمن کے والد صاحب) مولانا مفتی محمود کا یہ بیان "On Record" کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم (یعنی کانگریسی مولویو ں کی باقیات) پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘‘۔ 1993ء میں مولانا فضل اُلرحمن نے ’’امن کی آشا ‘‘ کے علمبردار ایک روزنامہ کے ’’میگزین ایڈیشن‘‘ کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا تھا کہ
 ’’ محمد علی جناح کوئی پیغمبر نہیں تھے کہ ، ہم اُن پر تنقید نہ کریں؟ ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک ِ پاکستان کے کارکنان بھی ’’کانگریسی مولویوں کی باقیات‘‘ پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے؟ 
’’مسٹر بھٹو سیاست میں؟ ‘‘ 
8 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کِیا تو لاڑ کانہ کے ایک وکیل ذوالفقار علی بھٹو بھی ’’مارشلائی کابینہ‘‘ میں شامل تھے، فوراً ہی بھٹو صاحب نے صدر سکندر مرزا کو خط لکھا کہ  ’’جنابِ صدر! آپ قائداعظم سے بھی بڑی لیڈر ہیں!‘‘۔ 28 اکتوبر کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف کر کے خود اقتدار سنبھال لِیا تو بھٹو صاحب اُن کی مارشلائی کابینہ میں بھی شامل تھے۔ اُنہوں نے صدر ایوب خان کو اپنا"Daddy" بنا لِیا۔
 2 جنوری 1965ء کو جب صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ’’پاکستان مسلم لیگ کونسل‘‘ کی امیدوار بنیں  تو’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی نے اُنہیں مادرِ ملت کا خطاب دِیا، پھر متحدہ اپوزیشن نے بھی مادرِ ملت کو اپنا امیدوار بنا لِیا تھا۔ اِس خوف سے کہ ’’ کہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان ’’سرکاری ملازم‘‘ (فیلڈ مارشل) کا عہدہ ہونے کے باعث اُنہیں انتخاب کے لئے نااہل قرار نہ دے دیں ، صدر ایوب نے اپنے دو وزراء مسٹر محمد شعیب اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے "Covering Candidates"بنا لِیا تھا۔ 
صدارتی انتخاب میں چونکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی ہر عاقل و بالغ شہری کے بجائے بنیادی جمہوریت کے 80 ہزار منتخب ارکان ہی کو ووٹ کا حق دِیا گیا تھا لیکن کُھلی دھاندلی سے صدر ایوب خان جیت گئے۔ انتخاب سے پہلے مولانا مفتی محمود نے فتویٰ دِیا کہ ’’شریعت کے مطابق  عورت ہونے کے ناتے محترمہ فاطمہ جناح ’’مملکت اسلامیہ پاکستان‘‘ کی صدر منتخب ہونے کیلئے نااہل ہیں! ‘‘ لیکن فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے طور پر ’’اجتہاد‘‘ کرلِیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب  دو بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو موصوف  اُن کے حمایت کرتے رہے۔ 
’’آنجہاؔنی حاکم علی زرداری!‘‘
معزز قارئین!  28 دسمبر 2018ء کو آصف علی زرداری کے والد اور بلاول بھٹو زرداری کے دادا ’’آنجہانی‘‘حاکم علی زرداری کی ایک ویڈیو فلم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ارکان کو بھجوائی گئی، (مجھے بھی) جس میں حاکم علی زرداری نے قائداعظم اور اُن کے والد صاحب جناح پونجا کے خلاف بدزبانی اور ہذیان گوئی کی تھی، جس کی تحریک پاکستان کے کارکنوں اور دوسرے محب وطن پاکستانیوں کی طرف سے بہت مذمت کی گئی ۔ 
ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے مولانا فضل اُلرحمن کو مسلم لیگ (ن) کا صدارتی امیدوار نامزد کر کے اپنی ’’سیاسی آخرت‘‘ خراب کرلی، تو بھلا مَیں اور ’’اہلِ پاکستان‘‘ کیا کرسکتے ہیں ؟ بہرحال کئی سال پہلے مَیں نے حضرت قائداعظم کی خدمت میں جو نذرانۂ عقیدت پیش کِیا تھا، وہ آج آپ بھی ملاحظہ فرمائیں…
نامِ محمد مصطفیٰؐ،نامِ علیؓ عالی مُقام!
کِتنا بابرکت ہے، حضرت قائداعظم کا نام؟
…O…
جب مُقّدر کُھل گیا، اِسلامیانِ ہِند کا!
قائدِ ذِی شان اُبھرا، صُورتِ ماہِ تمام!
…O…
اُس کی اِک آواز پر ، ہم جانبِ منزل چلے!
کر گیا محسور سب کو، حُسنِ ذات، حُسنِ کلام!
…O…
ٹوٹ کر، گِرنے لگے، ہر سُو، اندھیروں کے صَنم!
رَزم گاہ میں ، آیا جب، وہ عاشقِ خَیرُ الانامؐ!
…O…
سامراجی مُغ بچے بھی اور گاندھیؔ کے سپُوت!
ساتھ میں رُسوا ہوئے، فتویٰ فروشوؔں کے اِمام!
…O…
یہ ترا اِحسان ہے  کہ آج ہم آزاد ہیں!
اے عظیم اُلشان قائد! تیری عظمت کو سلام!
…O…
اپنے نصب اُلعین کی، تکمیل کرسکتے ہیں ہم!
قطبی تارے کی طرح ، روشن ہے قائدِ کا پیام!
…O…
اِس طرح دِل میں بسائیں، قائداعظم کی یاد!
مُلک میں قائم کریں، مضبوط جمہوری نظام!
…O…
مشورہ اِک ، ساقی، دَوراؔں کو، دینا ہے اثرؔ!
اِس طرح محفل سجے، کوئی رہے نہ تَشنہ کام!

ای پیپر-دی نیشن