منگل‘ 12 جمادی الثانی‘ 1445ھ ‘ 26 دسمبر 2023ء
سپریم کورٹ کے ججز کی کردار کشی ایک سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ملوث نکلے، تحقیقاتی ادارے
اداروں نے تحقیقات کر دی، پارٹی پکڑی گئی، سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی ہو گئی اب ہوگا؟ ہو سکتا ہے جو ہونا تھا ہو چکا ہو، وہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی حد تک۔ باقی پارٹی محفوظ ہے کم از کم اس معاملے کی حد تک تو محفوظ ہے۔ ججز اور ان کے خاندان کی کردار کشی نئی کہانی ،بات اور روایت نہیں ہے۔ کسی دور میں مخالفت میں فیصلہ آیا تو ایک لیڈر کی طرف سے اسے چمک کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ ججوں کی کردار کشی کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں کے پاس ایک ہی حمام ہے بلکہ ایک ہی حجام ہے اور ایک ہی ہتھیار ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کو لوگ مخالفین کے لیے کرَشّر اور کریشر کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو اس میڈیا کے ہتھے چڑھا وہ جو بھی ہے، جج ہے، جرنیل ہے، جرنلسٹ ہے، سیاستدان ہے، صدر ، وزیراعظم، بیوروکریٹ حتیٰ کہ مذہبی رہنما تک بھی سب کی پگڑی پاؤں میں ہوتی ہے۔ ایک سپریم کورٹ کے جج صاحب نے آمریت کی مرضی کا فیصلہ نہ کیا تو اس کی ایف اے کی ڈگری جعلی قرار دیدی گئی۔ سسپنس کیا رکھنا یہ جسٹس صفدر شاہ تھے جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کی مخالفت کی تھی تو ان کو پاکستان سے جان بچانے کے لیے فرار ہو کر نکلنا پڑا تھا۔ اتفاق سے بھٹو صاحب بھی بیرسٹر تھے۔ لندن میں بیرسٹری کے لیے ایف اے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جج کو انصاف کا ترازو تھما دیا جاتا ہے وہ جو بھی فیصلہ کرے اس سے اتفاق ہو یا نہ ہو، کردار کشی کا جواز نہیں بنتا۔ ماضی قریب میں ججوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کرنے والوں کو سزائیں دی گئی تھیں۔ آج بھی کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو دودھ کا دھلا نہیں۔ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جو اس کی طرف نکلتا ہے اس سے وصول کیا جائے۔
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا فی امان اللہ ہو گیا، فردوس عاشق اعوان
تحریک انصاف کو کچھ لیڈروں نے 9 مئی کی پھاہی کو دیکھ کر خیرباد کہامگر میڈم فردوس عاشق اعوان نے ’بھریا میلا‘ چھوڑا تھا۔ 9 مئی سے بہت پہلے تحریک انصاف سے کُٹی کر لی جب مراد راس کی طرح ان کو بھی ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا، جن کے انعقاد کی ان کو ہی امید تھی جو جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں جھولے لال والوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان کو ٹکٹ تو ملا مگر ’اڈے کھڈے‘ کی لکیریں نکالنے کے بعد۔ پرویز خٹک تو تقسیم کار اور دلہے کے سر سے وارے ہوئے نوٹ چگنے والوں میں شامل تھے۔ اب ان سب کے ہاتھ خان کے گریبان سے نیچے آتے ہی نہیں۔ فردوس عاشق کبھی کبھی کستی ہیں مگر کمال کی پھبتی کستی ہیں۔ مریم نواز کو مہارانی کہا کرتی تھیں۔ آئی پی پی تک عمران خان کی ٹرین سے اتر کر پہنچیں اس سے قبل زرداری کی ٹرام کی سوار ہی نہیں شہوار تھیں۔ جتنی سیاست کی، اصولوں کی سیاست کی۔ جس پارٹی سے اختلاف ہوا سود زیاں کا سوچے بغیر اس پارٹی کو فی امان اللہ کہہ دیا۔ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لیا گیا ہے مخالفین کہیں سمی ڈال رہے ہیں ، کہیں لڈی اور کہیں جگنی گا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن پرکڑا وقت آیا حریفوں نے کہا مسلم لیگ نون ، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ سیالکوٹ میں فردوس عاشق اعوان کے علاوہ بھی بڑے نام کے اور بڑے کام کے سیاستدان ہیں۔ خواجہ آصف ہیں، عثمان ڈار ہیں۔ تھوڑا ادھر دیکھیں تو احسن اقبال ہیں ادھر دیکھیں تو ابرار الحق ہیں۔ابرارصاحب 9 مئی کے بعد سیاست سے تائب ہو چکے ہیں۔ وہ تحریک انصاف میں ہوتے تو الیکشن لڑتے۔ بلے کا نشان فی امان اللہ ہو چکا ہے۔ وہ سارنگی، چمٹا، ہارمونیم کے نشان پر الیکشن لڑلیتے۔ چلیں 9 مئی نے ان کو آزمائش سے بچا لیا۔ خواجہ آصف اور عثمان ڈار کی والدہ کے مابین ’سنگ پاشی‘ ہوتی رہتی ہے۔ تیز ہوا سے دروازہ بھی کھڑکے تو ریحانہ بی بی الزام خواجہ آصف پر لگا دیتی ہیں۔ ستم گر کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔ خواجہ صاحب نے ایسے ہی الزامات پر کہا ہے جسٹس اطہر من اللہ میرے خلاف الزامات کی تحقیقات کا حکم دیں۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ عثمان ڈار کی والدہ میری بہن ہیں، ناکردہ گناہ کی معافی مانگتا ہوں۔ محترمہ نے خواجہ صاحب کے اس بیان پر ترکی بہ ترکی جواب دیا، یہ غیرت مند ہوتے تو حملے کے بعد میرے گھر آتے تو معاف کر دیتی۔ حملے کے بعد جس طرح محاذ گرم تھا خواجہ صاحب آتے، گھر واپس تو جاتے مگر ہسپتال سے پٹیاں کرانے کے بعد۔
٭٭٭٭٭
گنگنا رناوت کا بی جے پی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑنے کا اعلان
بھارت کی یہ پرلے درجے کی معروف اداکارہ ہیں۔ خود کو تنازعات میں ملوث رکھتی ہیں۔ قومیت پرست اور انتہا پسند کہلانا پسند کرتی ہیں۔ قومیت پرست ہونے میں کوئی برائی ہے نہ اپنے نظریات ہیں انتہا پسند ہونے میں کوئی حرج ہے۔ انتہا پسندی اپنی ذات تک رہے تو ٹھیک ذات سے نکلے تو شدت پسندی کی طرف چلی جاتی ہے جس سے دوسرے شدت سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ قومیت پرستی یا قومیت پسندی کئی معنوں میں لی جا سکتی ہیں۔ گنگنا رناوت نام سے لگتا ہے شاید گنگناتی ہوں۔ ذرا سر سے گنگنایا جائے تو گانا بن جاتا ہے۔ گانے بجانے والے اپنی قومیت پر فخر کرتے ہیں تو کیا برائی ہے۔ یہ ان کی قوم ہے۔ سکول میں ایک ٹیچر نے دوسرے کو بڑے احترام سے کہا، سُرجی سلام، اس پر سلام وصولی سے قبل اس نے جوتا اتار لیا۔ یہ دیکھ کر سلام کرنے والا ماسٹر آگے آگے اور دوسرے ایک پائوں سے ننگے ماسٹر صاحب پیچھے پیچھے تھے۔ گنگنا بی بی خوبرو لگتی تھیں، ایسی کہ کوہ قاف سے پری اتری اور پری تالاب سے نکلتے ہی جلدی سے آدھے کپڑے پہن کر زلفیں لہراتی ہوئی چلی آئی ۔ جب سے سنا ہے بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گی تو وہی سب کچھ ہے مگر اب شکل سے چم چٹھی لگتی ہیں، بال اسی طرح ہیں مگر اب اجڑا ہوا جھاٹا نظر آتا ہے۔ بی جے پی کا چہرہ ہی مکروہ گھنائونا اور بھیانک ہے جو بھی اس میں شامل ہوتا ہے ایسا ہی دِکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭
جیالا امیدوار گدھا گاڑی پر کاغذات جمع کرانے پہنچ گیا
یہ صاحب پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری جاوید ناگوری ہیں۔ نام پر جائیں تو مطلب بنتا ہے گوری نہیں ۔ گوری کا متضاد کالی ہوتا ہے۔ ہمارے گدھے کو ڈھیٹ اور احمق جانور بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ اگر اتنا ہی احمق ہوتا تو امریکا میں ڈیموکریٹس کا اانتخابی نشان گدھا کیوں ہوتا۔ جو گدھا ناگوری صاحب کی گاڑی کے آگے جوتا گیا اس کی تو توقیر بڑھنی ہی ہے۔ اب وہ واپس جا کر ایک ٹانگ اٹھا کر کھڑا ہو گا، گھر جا کر ، راستے میں دیوار یا کھمبے کے ساتھ نہیں۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ کھوتی تھانے سے ہو کر آئی تو دوسریوں یا دوسروں سے منفرد نظر آنے کے لیے ایک ٹانگ اٹھا کر اور سینہ تان کر کھڑی ہوتی تھی۔ یہ گدھا تو اس دفتر سے ہو آیا جہاں کاغذاتِ نامزدگی جمع ہو رہے تھے اور لے کر بھی کون گیا کراچی ڈویژن کا جنرل سیکرٹری۔ گدھا جی کی چاروں چوکر میں، چاروں ٹانگیں جبکہ دُم ہوا میں لہراتی ہوئی بمثل ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹا ململ کا۔ ناگوری صاحب کے پاس گاڑیاں بھی ہیں۔ یہ بھی تو گاڑی ہے گدھا گاڑی، گاڑی گاڑی ہوتی ہے۔ نئی ہو پرانی ہو، پجیرو ہو یا گدھا گاڑی۔ یادش بخیر، 2018ء میں جمشید دستی کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے گدھا گاڑی پر ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچے تھے جبکہ گوجرانوالہ میں تحریک انصاف کے سابق ضلعی جنرل سیکرٹری نے اپنے سپورٹرز کے ہمراہ گدھے پر بیٹھ کر کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ غریبوں کی شان بڑھانے کے لیے گدھا گاڑی پر آئے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے نالاں امیدوار انجم اقبال بھی گدھے پر بیٹھ کر کاغذات نامزدگی جمع کروانے پہنچ گئے تھے۔انجم اقبال کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، ان کے پاس گاڑی نہیں اور غریب آدمی کی پجارو گدھا ہے۔