• news

ناکامی کا ہتھیار  

کہتے ہیں کامیاب افراد اپنی ناکامی کی وجوہات تلاش کرتے ہیں اور ناکام لوگ جواز ، ہمیں تو بچپن سے ہی اپنی ناکامی کے جواز پیدا کرنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔ پیپر اچھا نہ ہوا تو آوٹ آف کورس سوالات شامل ہونے کی توجیہ پیش کردی امتحان میں نمبر کم آگئے تو پرچوں کی درست مارکنگ نہ ہونے کا الزام لگادیا ،نوکری کیلئے انٹرویو میں منتخب نہ ہوئے تو سفارشیوں کی بھرتی کا جواز پیش کردیا اور یہ سب عمر بھر چلتا رہتا ہے یہاں خود تو کوئی بھی غلطی نہیں کرتا، یہ دوسرے لوگ ہی ہوتے ہیں جو اس کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں اور اب تو ہم اسمیں اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ اپنی ناکامی کو مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا سیکھ لیا ہے۔
حالیہ دنوں کی بڑی خبر کو لے لیں۔ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا، خبر آئی اور پھر لعنتیں ملامتیں ، مظلومیت ، رونا دھونا شروع ہوگیا،  پارٹی کو الیکشن سے باہر  کرنے کی سازش ،انتقامی کارروائی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اصل میں کیا ہوا نہ کسی نے بتایا نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی۔ 
2002 کے الیکشن ایکٹ کے بعد سے تمام جماعتوں کیلئے پارٹی کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہوتے ہیں ہر پارٹی اپنا آئین الیکشن کمشن کو دیتی ہے جس میں پارٹی انتخابات کا طریقہ کار بھی ہوتا ہے اور اسی پارٹی آئین کے تحت مقررہ مدت میں انتخابات کرا کے الیکشن کمشن کو مکمل رپورٹ فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو الیکشن کمشن اس جماعت کو انتخابی نشان جاری نہیں کرتا اور یوں وہ جماعت انتخابات  میں حصہ لینے کی اہل نہیں رہتی تمام جماعتیں جیسے تیسے بھی ہوں اپنے الیکشن کراکے ایک رپورٹ الیکشن کمشن کو جمع کرادیتی ہیں لیکن پی ٹی آئی ایسا نہیں کرپائی ایک سال سے زائد عرصہ سے پارٹی بغیر انتخابات اپنے ہی آئین کے خلاف چلتی رہی الیکشن کمشن نے عام انتخابات قریب آتے ہی انتخابات کرانے کے نوٹسز جاری کئے لیکن پی ٹی آئی نے پھر بھی ایسا نہیں کیا ،وجہ یہی تھی کہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان نااہل تھے کسی اور کو چیئرمین بنانے پر ہچکچاہٹ تھی تو انتخابات تاخیر کا شکار ہوتے گئے اور بیس دن کی آخری مہلت ملنے پر جیسے تیسے الیکشن کراکے رپورٹ جمع کرادی گئی ،جیسے الیکشن ہوئے سوالات تو تبھی سے اٹھ رہے تھے لیکن کاغذی کارروائی مکمل کردی گئی کہ مان لیا گیا تو ٹھیک ورنہ مظلومیت اور انتقام کے رونے دھونے کا ہتھیار تو مل ہی جائے گا اور پھر الیکشن کمشن کا فیصلہ آگیا ، پی ٹی آئی سے بلا ایک قانونی جواز کی بنا پر لیا گیا ماضی میں اس بنا پر کئی چھوٹی جماعتوں کے انتخابی نشان واپس ہوئے ہیں،پرویز مشرف مرحوم کی آل پاکستان مسلم لیگ کا نشان عقاب بھی واپس لیا جاچکا ہے جو اب ایک دوسری جماعت کے انتخابی پوسٹروں کی زینت بنے گا ،80 کی دہائی میں ضیا الحق کے آمرانہ دور میں پیپلز پارٹی کا معروف نشان تلوار تو سرے سے ختم ہی کردیا گیا لیکن پیپلز پارٹی ختم نہ ہوسکی۔ یہ بات حقیقت ہوگی کہ تحریک انصاف وقت پر پارٹی انتخابات نہ کروا کے خود ہی  بلا گنوانے کی ذمہ دار بنی لیکن مسئلہ ہمارا یہی ہے کہ ہم نے ہر معاملے کو سیاسی رنگ دے کر فائدہ اٹھانا ہے اور یہی ہماری سیاست بن چکی ہے۔
 2013 میں پاکستان میں انتخابات متفقہ طور پر ایک ترمیم  شدہ  آئین کے تحت ہوئے پہلی بار نگران حکومتوں کا تقرر پارلیمان کے اندر حکومت اور اپوزیشن کے مشاورتی عمل کے طریقہ کار کے تحت ہوا انتخابی عمل میں شفافیت لانے کیلئے الیکشن کمشن  نے ووٹرز کے انگوٹھوں کی تصدیق کا نظام متعارف کروایا لیکن ہماری میں نہ مانوں والی عادت نے ان انتخابات کو بھی متنازعہ بنادیا تیسرے نمبر پر آنیوالی جماعت نے جیتنے والوں کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کیلئے ہر طرح کے جواز ہیش کئے۔ انتخابی عمل میں سامنے آنیوالی خامیوں کو منظم دھاندلی سے جوڑ ڈالا عدالتوں ،الیکشن کمشن ،نگران حکومتوں سب پر الزامات کے تیروں کی بوچھاڑ کردی ،عدالتی افسران  کی نگرانی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عدلیہ کے کردار کو شرمناک قرار دے دیا یہ اور بات ہے کہ اب وہی جماعت انتخابات میں عدالتی افسران کی نگرانی کا مطالبہ کررہی ہے، وجہ وہی تھی میں نہ مانوں۔ یہ سلسلہ تو چلتا رہا 2018 کا الیکشن بھی ہوا کئی ضمنی انتخاب بھی ہوئے اور اب 2024 کا انتخابی عمل شروع ہوچکا ہے۔ 
اس بار تو انتخابات سے پہلے ہی ایسا ماحول بن چکا ہے کہ بعدازانتخابات اٹھنے والی آوازیں قبل از انتخابات ہی سننے میں آرہی ہیں۔ لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے کوئی اور نہیں وہی جنہوں نے مخالف سیاسی جماعتوں ،سیاسی رہنماؤں ملکی قومی اور سیاسی اداروں سب کو متنازعہ بنایا اپنی سیاست اور اپنی انا کیلئے ایسے ماحول میں کیسے ممکن ہے کہ عام انتخابات جیسا بڑا کام بغیر کسی تنازعہ کے ہوجائے تو مسئلہ ان انتخابات کا نہیں یہاں پورے نظام کو ہی متنازعہ بنادیا گیا ہے اور نظام کو غیر متنازعہ بنانے کیلئے اداروں کو غیر متنازعہ بنانا ہوگا عوام کی نظر میں ان کی ساکھ بحال کرنا ہوگی ،ناکامی کی خفت مٹانے کیلئے بغیر شواہد الزامات کی بجائے جائز شکایات کو ٹھوس شواہد کے ساتھ مناسب فورم پر اٹھا کر ان کا تدارک کروانا ہوگا  اور اعتماد کی بحالی کا یہ کام سیاسی جماعتیں ہی کرسکتی ہیں اور یہی ان کا بڑا امتحان ہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن