بلا پی ٹی آئی کو واپس، الیکشن کمشن کا فیصلہ معطل، پارٹی سرٹیفکیٹ بھی جاری کرنے کا حکم: پشاور ہائیکورٹ کا ڈبل بنچ مزید سماعت 9 جنوری کو کرے گا
پشاور (بیورو رپورٹ+ نوائے وقت رپورٹ) پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمشن کا پاکستان تحریک انصاف سے ’’بلے‘‘ ( بیٹ) کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق الیکشن کمشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر علی گوہر نے درخواست پر دلائل دیئے۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمشن کا انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے فیصلے کا اختیار ہی نہیں ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمشن کو تمام تر دستاویز فراہم کردیں، الیکشن کمشن کے اس فیصلے کا پہلا بڑا نقصان یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کو بلا نشان نہیں مل سکے گا، اس فیصلے سے پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکے گی۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے کہ نشان کے بغیر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابات سے باہر کی گئی، الیکشن کمشن کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت کا انتخابی نشان کی فراہمی آئینی حق ہے، دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون نہیں کہ جہاں الیکشن کمشن اپیلیٹ کورٹ بن جائے، پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد ممبرز ہیں اور کسی نے سوال نہیں اٹھایا، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ الیکشن کمشن کے پاس آنے والے درخواست گزار کون تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ عام لوگ تھے، پی ٹی آئی کا حصہ نہیں، سول کورٹ میں مناسب ٹرائل کے بغیر ایسے کیسز میں فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے دلائل دیئے کہ الیکشن کمشن نے کہا کہ عمر ایوب سیکرٹری جنرل نہیں اس لئے وہ تعیناتی نہیں کرسکتا، اگر عام انتخابات میں بھی کسی کی تعیناتی غلط ہو تب بھی انتخابات چیلنج نہیں کیے جاسکتے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو صرف سپریم کورٹ نکال سکتی ہے۔ الیکشن کمشن کمشن نہیں جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی کے آئین و رولزمیں انٹر پارٹی انتخابات کا کیا طریقہ کار ہے؟۔ بیرسٹرعلی ظفر نے بتایا کہ پارٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ بیلٹ پر ہوگا، رجسٹرڈ ووٹرز ہی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، انٹراپارٹی انتخابات رولزہم نے بنائے ہیں، ہم ہی اپ ڈیٹ کریں گے، الیکشن کمشن ڈائریکشن نہیں دے سکتا۔ ایک طرف ہمیں کہا جاتا ہے کہ 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں اور دوسری جانب اعتراض کررہے ہیں، انٹرا پارٹی کے خلاف 14 بندوں نے الیکشن کمشن میں درخواست دی، ایک بھی پارٹی ممبر نہیں تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمشن کو کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی ممبر شپ کا کوئی ثبوت دیں، اگر انتخابی نشان نہیں ملا تو ہمیں اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں ملے گی، 30 دسمبر سکروٹنی کا آخری دن ہے، ہمیں نشان الاٹ کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پانچ منٹ کا وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد الیکشن کمشن کو درخواست دینے والے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے مقررہ وقت میں انتخابات نہیں کرائے، ہم نے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کی خلاف درخواست دی تھی۔ جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمشن نے 20 دن کا وقت دیا تو آپ کی بات ختم ہوگئی، اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمشن کے پاس کون سا اختیار ہے کہ وہ پارٹی سرٹیفکیٹ مسترد کرے۔ نوید اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمشن جرمانہ لگا سکتا ہے، جس پر جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں، آپ کبھی ایک اور کبھی دوسری بات کرتے ہیں، جب الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کس قانون کے تحت روک رہے ہیں جس پر نوید اختر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمشن خود کو مطمئن کرے گا۔ جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ جب چیئرمین اور سیکرٹری ختم ہوجائے تو پھر کیسے انتخابات کرائیں گے؟۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے۔ جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کیس کا فیصلہ نہیں کرنا، آج ہم نے عبوری ریلیف پر فیصلہ کرنا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللہ نے دلائل دیے کہ انٹیرم ریلیف دینے سے لگے گا کہ حتمی فیصلہ بھی دے دیا، جس پر جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ کل کو اگر ہم کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو پھر پانی سر کے اوپر گزرا ہوگا۔ جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ کیا پھر الیکشن کمشن دوبارہ انتخابات کرائے گا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ایک آرڈر سے پارٹی کو انتخابات سے نکال دیا گیا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں الیکشن کمشن شفاف انتخابات کرائے۔ الیکشن شیڈول جاری ہوا ہے اب تو نشان نہیں روک سکتے، دینا ہوگا۔ الیکشن کمشن ایک پارٹی کو الیکشن سے آؤٹ کر رہا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر اس کے لیے ڈویژنل بنچ تشکیل دیا جائے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، الیکشن کمشن خود مختار ادارہ ہے اور ان کے پاس اختیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری بات تحمل سے سن لی جائے، عدالت کی معاونت کروں گا، الیکشن کمشن اگر پارٹی کو ختم کرے تو ایسی صورت میں سپریم کورٹ جانا ہوگا۔ جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے تو سارے کاغذات جمع کئے اور آپ نے جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا، اگر کاغذات نہ دیتے اور الیکشن کمشن نے ختم کیا ہوتا تو تب سپریم کورٹ جاتے، یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک پارٹی انتخابات کرائے اور تفصیل فراہم کرنے کے بعد الیکشن کمشن اسے تسلیم نہ کرے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سادہ بات ہے کہ یہ کیس ڈویژنل بنچ کا ہے، ان کی استدعا اور انٹیرم ریلیف ایک ہی ہے، کیسے آپ حکم امتناع دے سکتے ہیں؟۔ جسٹس کامران حیات نے کہا کہ یہ چیف جسٹس فیصلہ کریں گے کہ کب ڈویژنل بنچ کو لگے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل پر مشال یوسف زئی ہنس پڑیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں میں مذاق کیے لیے کھڑا ہوں کہ یہ ہنس رہی ہے، آپ انہیں کہیں کہ یہاں سے ’شٹ آف‘ ہوجائے، جس پر جسٹس کامران حیات نے ہدایت دی کہ بی بی آپ سائید پر بیٹھ جائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سوال اٹھایا کہ ان کو کیا جلدی ہے، انتخابی نشان الاٹ کرنے میں ابھی تو وقت ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست بیرسٹر ظفر، علی گوہر، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب، منیر احمد بلوچ، ظاہر شاہ اور انور تاج نے جمع کروائی ہے، جس میں الیکشن کمشن کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمشن کے فیصلہ کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اٹھانا ہی غلط تھا، بلے کا نشان لینا بھی غلط ہے، واپس کیا جائے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ معطل کرکے بلے کا نشان بحال کیا جائے۔ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے خلاف سازشیں ختم کردیں۔ پشاور میں پی ٹی آئی رہنمائوں اور وکلا کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے خلاف سازشیں ختم کردیں، عدلیہ نے 25 کروڑ عوام کا اعتماد بحال کردیا، پشاور ہائیکورٹ نے ہمیشہ انصاف کا سر اونچا کیا۔ انتخابی نشان کسی بھی پارٹی کا آئینی حق ہوتا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے آج بلے کا نشان بحال کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب بلے کے نشان پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں موسم سرما کی چھٹیاں ہیں، سنگل بنچ بھی الیکشن کمشن کا فیصلہ معطل کرسکتا ہے، درخواست میں استدعا کی ہے کہ آج ہی کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار بار کہہ چکی ہے کہ سیاسی جماعت کا حق ہے کہ اپنے پارٹی نشان سے الیکشن لڑے۔ اگر ایک پارٹی ایک نشان سے الیکشن نہیں لڑے گی تو 227 مخصوص نشستیں کہاں جائیں گی، یہ 25 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ اس الیکشن کے بعد صدر اور سینٹ کا الیکشن بھی ہونا ہے، ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ تو کیا کچھ بھی نہیں دیا جارہا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمشن کا فیصلہ معطل ہوگا۔ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد ڈبل بنچ میں کیس سنا جائے۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔ سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی۔ ریمارکس میں جج نے کہا اگر عدالت کل اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ الیکشن کمشن کا آرڈر ٹھیک نہیں تو پھر کیا ہوگا۔ فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیاکہ رٹ پٹیشن کو موسم سرماکی تعطیلات کے بعد ڈویژن بنچ کے سامنے سماعت کے لئے رکھاجائے۔ ہائی کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیاکہ8فروری کو ملک بھرمیں عام انتخابات ہورہے ہیں اورایک سیاسی جماعت کو ان کاانتخابی نشان الاٹ نہیں کیاجارہا ہے جبکہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کی آخری تاریخ 13جنوری تک ہے اس بناء پراس کیس کوہنگامی بنیادوں پر سناگیاحکم نامہ میں یہ بھی قراردیاگیاکہ درخواست گذاروں کے وکلاء اورڈپٹی اٹارنی جنرل سمیت ایک شکایت کنندہ نے بھی دلائل دئیے تاہم عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کے لئے 13جنوری آخری تاریخ ہے اوراس پشاورہائی کورٹ میں کوئی دوسراڈویژن بنچ نہیں ہے اس بناء پر تعطیلات کے بعدپہلے دستیاب ڈویژن بنچ کے سامنے کیس سماعت کے لئے رکھاجائے تاہم اس وقت تک کے لئے الیکشن کمشن کے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اوراس ضمن میں انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے کاحکم معطل کیا جاتا ہے۔جسٹس کامران حیات نے دلائل سننے کے بعد کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ لوگ آئے ہیں ہم نے آپ کو سنا، اب تو کچھ کرنا ہوگا اگر آپ نہ آتے تو ہو سکتا ہے ہم اس کو 2 جنوری کو جو بھی ڈویژن بنچ ہوتا اس کو بھیج دیتے پارٹی امیدواروں کو کب تک ٹکٹ جاری کرنا ہے اس کی آخری تاریخ کیا ہے؟ اگر پارٹی سے انتخابی نشان لیا جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے اگر مسلم لیگ ن سے شیر، پیپلز پارٹی سے تیر اور جے یو آئی سے کتاب واپس لیا جائے تو کیا ہوگا، عدالت نے سماعت 9 جنوری تک ملتوی کر دی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا 13 جنوری کو نشان الاٹ کئے جائینگے ۔ وکیل نے بتایا کہ بالکل 7 دن میں اس نے سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہے۔ جسٹس کامران میاں خیل نے کہا کہ آج کیس موشن میں ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چھٹیاں ہیں اس کیس کو چھٹیوں کے بعد سنیں، جس پر جسٹس کامران حیات میاں خیل نے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ پاکستان میں کتنی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 175 پارٹیاں ہیں۔ جسٹس کامران میاں خیل نے کہا کہ کسی اور پارٹی کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ اگر اس کو مکمل ڈاکومنٹس فراہم نہیں کیا جاتا تو وہ اس پارٹی کے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے۔ جسٹس کامران حیات میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ 2018 الیکشن میں اس پارٹی نے حصہ لیا تو یہ رجسٹرڈ پارٹی ہے، جب ایک پارٹی رجسٹرڈ ہے اور اس نے الیکشن کرائے اور سرٹیفیکیٹ جمع کیا تو پھر کیسے انھوں نے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں الیکشن کمیشن صاف اور شفاف انتخابات کرائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللہ نے کہا کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ الیکشن کمیشن متنازعہ ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمشن کا 22 دسمبر کا فیصلے معطل کیا جاتا ہے اور الیکشن کمشن کو ہدایت جاری کی جاتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری کرے۔پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بیٹ بھی بحال کریں۔ الیکشن 8 فروری کو ہونے جارہے ہیں اور 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ ہونگے۔ ایک پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ 9 جنوری 2024 تک عدالت کا حکم برقرار رہے گا۔