شہادت بینظیر بھٹو کا مقدر بن گئی
عترت جعفری
مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے 16 سال بیت گئے، مگر ان کی شہادت کل ہی کی بات لگتی ہے۔ جس طرح ان دنوں انتخابی مہم چل رہی ہے اور سیاسی جماعتیں 8 فروری کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تیاریاں کر رہی ہیں، کارنر میٹنگز اور چھوٹے بڑے جلسے بھی منعقد ہو رہے ہیں ، مگر ان سب سرگرمیوںسے ہٹ کر ایک اجتماع اس وقت گڑھی خدا بخش میں بھی ہو رہا ہے، اس کا مقصد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی یاد کو منانا ہے اور ان کے سیاسی فلسفے، سوچ اور اس ملک کے لیے ان کی نمایاں خدمات کو اجاگر کرکے ان کی جد جہد کو آگے سے آگے بڑھانا ہے۔27 دسمبر 2007 کو آج ہی کے دن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنی الیکشن مہم کے اختتامی مرحلے پر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام میںشرکت کے لیے گئی تھیں، ان کی زندگی کو لاحق شدید خطرات کے بارے میں اطلاعات پہلے سے موجود تھیں، لیکن بہادر خاتون نے چھپنے کی بجائے خوف کا سامنا کرنے کا راستہ اختیار کیا کیونکہ یہی ان کا فطری میلان تھا۔ اس سے پہلے بیرون ملک سے کراچی آمد پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے جلوس پر سنگین خودکش حملہ ہوا تھا، وہ چاہتی تو قلعہ بند ہو سکتی تھیں، مگر ان کو ڈرایا نہیں جا سکا، یہی ان کے دشمنوں کی شکست تھی، جس سے بوکھلاکر لیاقت باغ میں خون آشام حملہ کیا گیا،جس کا مقصد اس ملک سے توازن اور لبرل سیاست کا خاتمہ کرنا تھا ، مگر ان پر حملہ کرنے والے یہ بھول گئے تھے کہ صدیوں کا سبق یہی ہے، ظالم مٹ جاتے ہیں اور مظلوم زندہ رہتا ہے۔اس مقام پر عوام کیلئے زندگی کی سلامی دینے والی بہادر خاتون آج ہم میں موجود نہیں مگرکوئی سبق سیکھے یا نہ سیکھے حقیقت یہی ہے، آج گھڑی خدا بخش میں جمع ہونے والا اجتماع اس بات کا ثبوت ہے، مظلوم کی حمایت میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے جو پرچم ذوالفقار علی بھٹو شہیدکے ہاتھ سے تھاما تھا آج وہی پرچم ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ شہید کا نشان ،ویژن ، جماعت اور طرز سیاست آج بھی موجود ہے اور ان کو مٹانے کی ناکام کوشش کرنے والوں کا کچھ اتا پتہ نہیں ۔
شہید بھٹو کا جو پیغام اپنی بیٹی اور اس ملک کے عوام کے نام ان کی آخری تحریرں میں شامل رہا وہ آج بھی پیپلز پارٹی کا نصب العین ہے، ہے، 21 جون 1953 سے27 دسمبر 2007ء تک بے نظیر بھٹو نے اپنی 54سال کی مختصر زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے والدپراپنی سیاسی بصیرت کے اثرات واضح کر دیئے تھے۔ بینظیر بھٹو امریکہ اور بعد ازاں برطانیہ کے اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم لینے کے ساتھ ساتھ سفارتی سرگرمیوں کا حصہ بھی بنتی رہیں ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی صدر رہیں، انہوں نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس بھی شرکت کے علاوہ اپنے والد ذلفقار علی بھٹو شہید کے ہمراہ بھارت کا دورہ بھی کیا۔ یہ وہی دورہ تھا جس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معا ہدہ طے پایا تھا،وقت کی ستم ظریفی دیکھی ہے کہ اس معاہدہ کے ٹھیک چار سال کے بعد منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، یہ کام ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک کے اندر جمہوری ادارے بن گئے تھے، سول سیٹ اپ جڑیں پکڑ رہا تھا، آئین بن گیا تھا، اور اس کی پاسداری کا حلف سب نے اٹھا رکھا تھا، اور یہیں سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان کے لیے ابتلا کا دور شروع ہوا، کوڑے پھانسیاں تشدد، قید اور شاہی قلعہ کے عقوبت خانے، پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کا مقدر بن گئے، مگر اس دور میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے ضمیر بیچے اور وقتی ریلیف لیا، لیکن آج ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہے، بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو قید میں رہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کو بعد ازاں جلا وطن کر دیا گیا، مگر ابتلا کے سارے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنی پارٹی کو قیادت فراہم کی، تاریخ کا پہیہ گھوما اور 1986 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی جلا وطنی ختم کر کے جب لاہور کے ایئرپورٹ پر پہنچی تھی، اس ملک کے باسیوں نے ان کا وہ استقبال کیا کہ چشم فلک نے اس سے پہلے ایسا نظارہ نہیں دیکھا تھا، اور اسی طرح کا ایک استقبال ان کا کراچی میں ہوا، جس پر خود کش حملہ کیا گیا تھا جو ایک خطرے کی گھنٹی تھا، وہ1988ء میں مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئی، دوسری بار1993ء میں وزیر آعظم بنیں ،اس ملک کی تاریخ پر جب بھی نظر دوڑائی جائے گی تو یہ بلا خوف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ملک کے اندر آئین کی پاسداری کی کمزور روایت نے بہت گل کھلائے ہیں، آمریتوں نے آئین کا حلیہ بگاڑا، اور 1990ء کی پوری دہائی حکومتوں کے آنے اور جانے میں گزر گئی، محترمہ بینظیر بھٹو کی پوری سیاسی زندگی پر نظردوڑائی جائے تو محترمہ کا انتخاب ہمیشہ جمہوریت رہی، متوازن طرز فکر کے ساتھ انہوں نے 1988 میںوزیر اعظم بن کر پہلا جملہ یہ ادا کیا آج ہم نے جمہوریت کے ذریعے آمریت سے انتقام لے لیاہے،،،، جنرل مشرف کے مارشل کے دور میں بھی انہیں جلا وطن ہونا پڑا، مگرسیاست ان کا طرہ امتیاز رہا، اپنی سیاسی سوچ بوجھ، ایشوز کو سمجھنے جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت، اور ان کے قابل عمل حل کو قبول کرنے کی صلاحیت نے انہیں ہمیشہ سیاست میں نمایاں رکھا۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت ہی تھے جس کی وجہ سے جنرل مشرف کو وردی سے سول ڈریس میں آنا پڑا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی کا ایک پہلو جو بہت ہی زیادہ روشن ہے وہ یہ ہے کہ ان کے والد کو شہید کیا گیا، ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو پر تشدد ہوتا رہا ان کے دونوں بھائیوں کو شہید کیا گیا مگر انہوں نے اپنی ذاتی دکھ اور غم کو کبھی بھی اپنے سیاسی فیصلوں پر حاوی نہیں ہونے دیا، ان کی سفارتی امور میں مہارت، اور بین الاقوامی امور کی سوجھ بوجھ نے ان کو پاکستان کی سیاست میں اعلی مقام دیا، یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کا فیضان تھا کہ ان کے بدترین مخالف اطمینان کی سیاست کرتے رہے، مگر افسوس ان کے مخالفین نے کبھی ان کے لیے اعلی ظرفی کا نہیں دکھائی تھی ، 1996 سے 1999 کے دوران ان کو انتقام کا شدید طور پر نشانہ بنایا گیا، مگر جب ملک میں مارشل لگا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ذاتی نقصانات کو نظر انداز کیا اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی، اج جب کہ ملک میں ائین پاکستان کے ساتھ ساتھ میثاق جمہوریت کی بات کی جاتی ہے یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ویڑن کا ہی نتیجہ تھی،بحیثیت پاکستانی قوم ہم نے بڑے ہی زیرک لیڈروں کو کھویا ہے اور اپنا ہی نقصان کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو انہی میں سے ایک تھی، اگر وہ زندہ رہ جاتی تو 2008 کے انتخابات میں وزیراعظم بنتی، ان کو شہید کرنے کی سازش کی گئی، سارے کردار سامنے ہیں مگر اج تک یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا، ذوالفقار علی بھٹو شہید کا ریفرنس اب بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، یہ ہماری قومی زندگی کے داغ ہیں، اس وقت شہید ذلفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پارٹی کی باگ ڈور بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے، ان میں اپنے نانا اوروالدہ کی جھلک نظر اتی ہے، اگر وہ اپنی والدہ محترمہ کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں گے تو کامیابی ان کا قدم چومے گی۔
[9:45 PM, 12/23/2023] Khalid Hashmi: السلام علیکم ہاشمی صاحب حسب وعدہ میں نے اپنا مضمون روانہ کر دیا ہے۔۔۔