• news

پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کر سکتی ہے،  پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں اور ایکٹ سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملے گی۔ پارلیمان کا ادارہ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ ہر شق کا انتہائی احتیا ط سے جا ئزہ لیا ،کسی بھی طورآئینی خلا ف ورزی نہیں ہو ئی۔ قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔ اداروں کے درمیان باہمی احترام کے آئینی تقاضے ہیں اور باہمی احترام کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمان کے رائے کو اپنی رائے سے تبدیل نہ کرے۔ عدالت عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں جبکہ ایکٹ سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملے گی اور چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی سے عدلیہ زیادہ بااختیار ہوگی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا گیا ہے جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دنیا بھر کے قوانین کے ساتھ شرعی تقاضا بھی ہے۔ فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر نکات پر غور کرنا اکیڈیمک بحث ہی ہوگی۔ بائیس صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے سے پہلے ہی عدالت نے حکم امتناع جاری کر دیا۔ آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا اور آئین چیف جسٹس کو اکیلے ہی فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا۔ چیف جسٹس کا ماسٹر آف روسٹرز ہونا آئین میں کہیں نہیں لکھا۔ فیصلے کے مطابق جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے۔ ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آئین اور شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔ شرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کے درمیان ہونے والے معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں۔ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔  سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں۔ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کو چھوٹے بنچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ دریں اثناء سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا 24 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کیا گیا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اپیل کا حق دینے کا سیکشن 5 کالعدم قرار دیا جاتا ہے، آرٹیکل 184 تین کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ اپیل کا حق دینا بلا شبہ ایک مثبت اقدام ہے، اگر پارلیمنٹ 184 تین کے کیسز میں اپیل دینا چاہتی ہے تو آئینی ترمیم کا درست راستہ اپنائے، سادہ قانون سازی سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا سیکشن 5 پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔ اٹارنی جنرل اور ایکٹ کے حامی تمام وکلاء پارلیمنٹ کی مداخلت کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں اپیل کا حق دے کر ایک نیا دائرہ اختیار متعارف کرایا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار میں اپیل شامل نہیں کر سکتا۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ آئین پارلیمنٹ کو پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق قانون سازی کا مکمل اختیار دیتا ہے، آرٹیکل 184/3 کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کی قانونی شق پر 6 ججز نے اختلاف کیا، 6 کے مقابلے میں 9 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دیا جاتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن