امریکہ اور بھارت کی سازشیں، دنیا ایک اور عالمی جنگ کی طرف اور محمد بن سلمان کا سعودی عرب!!!!!
دنیا میں جہاں کہیں بھی بدامنی ہے، انسانوں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں، معصوم انسانوں پر ظلم ہو رہا ہے، بے بس انسانوں کو دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے، کمزور انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، عمارات ملبے کا ڈھیر بن رہی ہیں، پہاڑیاں انسانی خون سے رنگین ہیں، گلیوں میں انسانی خون کے دھبے ہیں، سڑکوں پر انسانی اعضاء بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ سب ظلم اس دنیا میں ہو رہا ہے جہاں دنیا کے بڑے بڑے ممالک انسانی حقوق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں ۔ آپ فلسطین کو دیکھیں کشمیر کو دیکھیں دونوں مقامات پر مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، خون بہایا جا رہا ہے لیکن جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں وہی ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ امریکہ بھارت کو نہیں روکتا اور دنیا میں کوئی بھی امریکہ کو نہیں روکتا، کیا لوگوں میں یہ سوچ ہے کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ صرف اسرائیل اکیلا کر سکتا ہے۔ درحقیقت ایسا بالکل نہیں ہے یہ سب کچھ امریکہ کی حمایت سے ہو رہا ہے اور امریکہ ہی اسرائیل کی پشت پر موجود ہے، دوسری طرف کشمیر میں ہونے والے ظلم میں بھی امریکہ برابر کا شریک ہے۔ کتنے ہی ممالک ہیں جو امریکہ کی ظالمانہ پالیسیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور جس انداز میں امریکہ مختلف ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے یہ حالات دنیا کو ایک اور عالمی جنگ کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کے قریب ہونے والے دھماکے کو ایک پیغام کہا جا سکتا ہے کیونکہ جب آپ ظلم کرتے ہیں یا ظالم کا ساتھ دیتے ہیں تو پھر کسی نہ کسی جگہ سے کسی نہ کسی انداز میں ردعمل تو آتا ہے۔ گوکہ دھماکہ کہیں بھی ہو یہ قابل مذمت ہے لیکن جب دنیا کے بڑے ممالک کسی کی آزادی پر ڈاکہ ڈالیں اور طاقت کا غلط استعمال کریں اور تسلسل کے ساتھ کرتے رہیں گے تو پھر اس کا ردعمل آتا ہے اور جب ظلم بڑھتا ہے اور اگر کہیں سے ظالم کے خلاف مضبوط آواز بلند ہو اور کوئی یہ طے کر لے کہ جھکنا نہیں ہے تو پھر ایک وقت آتا ہے جب صورتحال بگڑتی اور ایک عالمی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ گذشتہ برسوں میں نائن الیون کے بعد جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، جو کچھ امریکہ نے ایران ، عراق اور افغانستان کے ساتھ کیا اور جس بے رحمی کے ساتھ دیگر ممالک کو تباہ کیا ہے اسی شدت کے ساتھ اب وہ فلسطین کی تباہی کے لیے کام کر رہا یے۔
دہلی میں ہونے والا دھماکہ بھی ایک ردعمل ہی ہے دہلی فائر سروس کو نامعلوم شخص نے اسرائیلی سفارت خانے کے قریب دھماکے کی اطلاع دی۔بم ڈسپوزل اسکواڈ اور سکیورٹی ٹیموں کو جائے وقوعہ سے کوئی مشتبہ چیز نہیں ملی۔واقعہ سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔دوسری جانب اسرائیلی وزارت خارجہ نے نئی دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کے قریب دھماکے کی تصدیق کردی ہے۔ترجمان اسرائیلی سفارت خانہ کے مطابق دھماکا پانچ بج کر بیس منٹ پر ہوا، واقعہ میں سفارتی عملے کے ارکان محفوظ ہیں۔اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ واقعہ کے حوالے سے تحقیقات کے لیے بھارتی حکام سے رابطے میں ہیں۔ اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیلی حملے میں ایرانی پاسدران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل سید رضا موسوی بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔بریگیڈیئر جنرل رضا موسوی شام میں مزاحمتی یونٹ کے انچارج تھے ۔ جب یہ حالات ہوں گے ایسی کارروائیاں تسلسل سے ہوتی رہیں تو پھر ایک موقع ایسا آتا ہے جب کسی کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ پھر ایک عالمی جنگ ہی ہوتی ہے۔ اب اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو اس کی ساری ذمہ داری بھارت اور امریکہ پر ہی عائد ہو گی۔
امریکہ حوثی باغیوں کے معاملے میں بھی الجھا ہوا ہے۔ یمنی حوثیوں نے بحیرہ احمر میں امریکا کے بحری جہاز پر حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ بحیرہ احمر میں بحری جہاز پر میزائل حملے کیے گئے جبکہ اسرائیل کی جانب سے ڈرون حملے بھی کیے گئے ہیں۔ یمنی حوثیوں کے مطابق بحیرہ احمر میں ٹارگٹ کیا گیا بحری جہاز امریکا کا تھا جس کی شناخت ایم ایس سی یونائیٹڈ کے طور پر کی گئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی اسرائیل میں متعدد فوجی اہداف کو بھی ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکہ یمنی حوثیوں کے معاملے میں سعودی عرب سے مزید تعاون کی خواہش رکھتا ہے لیکن شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اور سعودی عرب کی معیشت کو صرف تیل پر انحصار سے نکالنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کو مستقبل میں ایک مضبوط اور تجارتی سرگرمیوں سے بھرپور ملک بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ محمد بن سلمان اس معاملے میں امریکہ سمیت دنیا کے دیگر اہم ممالک سے ماضی کے مقابلے میں مختلف انداز سے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ خطے میں امن کے خواہشمند اور باہمی تعلقات مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کی معیشت کو جدید خطوط پر آگے بڑھا رہے ہیں اور عالمی طاقتوں کی خواہشات پر فیصلے کرنے کے بجائے اپنے ملک کے بہتر مستقبل اور وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کر رہے ہیں۔ جب کہ امریکہ مسلسل دنیا میں کہیں نہ کہیں تشدد، ظلم اور جنگ کی کیفیت کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں بھی امریکہ کے عزائم یہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کے ذریعے اور دوسری طرف اسرائیل کے ذریعے دنیا کو ایک بڑی جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا