حمزہ شہباز مجبوربے بس کارکنوںکی فریاد قائد تک پہنچا رہے ہیں
اجکل جہاں جائو لوگ مختلف سوال پوچھتے ہیں کو ئی پوچھتا ہے کہ کیا الیکشن ہوں گے ؟ تو کوئی عمران خان کے مستقبل بارے جاننا چاہتا ہے کہ وہ کب رہا ہوں گے ؟اسی طرح سب سے اہم سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ ائندہ وزیراعظم کون ہوگا اور الیکشن کون جیتے گا۔سوچا ان سوالوں کاجواب بذریعہ تحریر دیا جائے۔تو قارئین انتخابی ماحول بن چکا ہے اور سیاسی میدان میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار اتار چکی ہیں اور اب 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی راہ میں کو ئی بھی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے پی ٹی آئی اپنے مخصوص سازوسامان یعنی پراپیگنڈے کو اپنا سب سے اہم ہتھیار سمجھتی ہے اور اسی کے بل پر وہ انتخابی میدان میں اتر چکی ہے اور مسلم لیگ ن عملی اقدامات کی حکمت عملی پر گامزن ہے اور منزل کے قریب ہے جبکہ جاننے والے جان چکے ہیں کہ اب میاں نوازشریف پاکستان کے وزیر اعظم ہوں گے اور ان کو چوتھی بار وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کہ سعادت حاصل ہوگی عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پی ٹی آئی نے اپنے مخصوص سازوسامان جن میں سوشل میڈیا سرفہرست ہے کے زریعے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوششیں کی جو سب ناکام ہوئیں اسی طرح اسی انداز میں عمران خان اپنے دور حکومت میں نمائشی اقدامات کرتے رہے جبکہ عملی طور پر عوام کو درپیش حقیقی مسائل جیسے مہنگائی اورغربت کے خاتمے صحت وتعلیم کی سہولیا ت فراہم کرنا ان سب میں ناکام رہے پاکستان کو معاشی طور پر ایسی دلدل میں دھکیل گئے کہ اب نواز شریف کے علاوہ کو ئی ایسا مدبر سیاستدان نظر نہیں آتا جو ملک کو ان مسائل سے نکال سکے اسلیئے طاقتور حلقے بھی مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ نوازشریف کی راہ میں کو ئی رکاوٹ نہ آنے دیں تاکہ ملک آگے بڑھ سکے۔قارئین گذشتہ ادوار میں جسطرح طاقتوروں نے اس ملک کی تقدیر کیساتھ کھیلا ہے اسکے بعد کیا آپشنز رہ گئی ہیں ؟ کیا عمران خان کو دوبارہ اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے کی اجازت دی جاسکتی ہے یا آصف علی زرداری اس ملک کو درپیش مسائل کا حل نکال سکتے ہیں تو یقینی طور پر اب ایسا ممکن نہیں رہا حالات کا جبر سمجھ لیں یا تقدیر کا کھیل نوازشریف اس ملک کی تقدیر ہیں اور یہ سمجھ سب کو آچکی ہے اس ملک میں جس طرح سے نظام انصاف کو نوازشریف کو آئوٹ کرنے کیلیئے استمعال کیا گیا تھا اسکی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے اسکے باوجود اگر مسلم لیگ ن کی قیادت پاکستان کو مسائل سے نکالنے میں سنجیدہ ہے تو یہ قابل تحسین امر ہے یہی وجہ ہے کہ اب عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کی راہ بھی ہموار ہوچکی ہے عام انتخابات کے انعقاد پر سوال اٹھانے والے ناعاقبت اندیشوں کو بھی اس کی خبر ہوچکی ہے اور وہ اپنی بچی کھچی طاقت کیساتھ سعی ناکام کررہے ہیں قارئین بتانے والے بتارہے ہیں کہ اب میاں نوازشریف بہت سنجیدگی کیساتھ پاکستان کی ترقی کیلیئے سوچ رہے ہیں اور اس باروہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے مجھے امید ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد چند ماہ میں پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اگے نکل جائیگا اگر ایسا ہونا ہیطتو اسکے لیئے عمران خان کی رہائی ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔دوسری جانب حمزہ شہباز کا اپنے قائد میاں نواز شرف کے سامنے یہ درخواست کرنا کہ مصیبت جھیلنے والے کارکنوں کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ انکا اوڑھنا بچوڑنا مسلم لیگ ن ہی ہے وہ اپنے قائد کے ا اشارے پر دیوانہ وار نکل پڑتے ہیں حمزہ شہباز کارکنوں کے حق میں اس لئیے بات کر رہے ہیں کہ وہ عملی سیاست میں انکے ساتھ رہتے ہیں کارکن حمزہ کے اور حمزہ کارکنوں کے درمیان مشرف امریت سے یہ رشتہ بنا جو اب تناور درخت بن چکا ہے حمزہ سے وہ حق تلفی پر احتجاج کرتے ہیں کیونکہ وہ حمزہ شہباز سے بات کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ویسے انھوں نے مشرف امریت اور عمرانی نیم امریت میں بہت مصیبتیں جھیلیں ہیں مسلم لیگ ن کے کارکن ٹکٹوں کی تقسیم پر ناراض ہیں انکا خیال ہے کہ پیراشوٹرز ھمیشہ انکی بے بسی کو اپنے پیروں تلے روندنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بہاولنگر سے ایک دیرینہ مسلم لیگی کارکن کا کھلا خط جسکی تحریر میں درد محسوس کیا جاسکتا ہے وہ اپنے قائد میاں نواز شریف شہباز شریف مریم نواز اور حمزہ شہباز سے اپنی جوانی سے بڑھاپے کا حساب مانگ رہا ہے وہ لکھتے ہیں
مسلم لیگ ن لیگ کو قربانیاں دینے والے کارکنوں کے گھر والوں کو پہلے نمبرز پر ٹکٹ دینی چاہیے خواتین کی مخصوص سیٹوں کے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے میرٹ کی پامالی کی ایسی مثال شایدکہیں اور نہ ملے لیڈیز سیٹوں پر ایک گھر سے دو ٹکٹس بھی دیے گئے اور با اثر جنرل الیکشن میں بھی ٹکٹ لے گئے ۔ جو کئی مرتبہ ممبرز اسمبلی رہ چکی ھیں دوبارہ انھیں بنایا جا رھا ھے۔ قربانی دینے والے وفادار جاںنثار مخلص اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کے نام لیڈیز لسٹ میں پرارٹی لسٹ میں نھیں دیا گیا ان کے نام آخری نمبرز پر لسٹ میں دیے گئے ہیں مسلم لیگ ن کے قائدین میاں نواز شریف شہباز شریف کو اس سلسلے میں اقدامات کرنا ہوں گے اور کارکنان کو ان کا جائز مقام دینا ھو گا تمام سیاسی جماعتیں کارکنان کے متعلق بہت اچھی رائے رکھتی ہیں اور جب کارکنان کو اکاموڈیٹ کرنے کا وقت آتا ھے پیرا شوٹر انویسٹرز لوٹے ابنِ الوقت آگے آ کر کارکنان کو ان کے حق سے محروم کر کے سیٹ لے جاتے ھیں۔ مشکل وقت میں نظر بھی نہیں آتے مسلم لیگ ن کے کارکن شفیق خان بھاولنگر والے کو ذاتی طور پر جانتا ھوں جس نے مشکل وقت میں اور زندگی کے 38سال اپنے قائدین کے ساتھ وفاداری میں گزار دیے کبھی پارٹی تبدیل نھیں کی اور میاں نواز شریف شہباز شریف اس کی خدمات کو سراہتے ہیں اس کی بیوی رخسانہ شفیق کو لیڈیز سیٹ پر نمائندگی دینے کے لیے لسٹ میں نام دیا لیکن کس نے آخری نمبرز کے ناموں کی لسٹ میں نام دے دیا۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو اپنے وفادار جاںنثار مخلص ورکرز کو عزت و احترام کے ساتھ ان کو اکاموڈیٹ کر کے ورکرز کی حوصلہ افزائی کر سکتے ھیں ورنہ جس طرح ورکرز قربانی دینے والے نظر انداز ھو رھے ھیں پارٹیوں میں ان پھولوں کی قدر کریں کہیں یہ پھول مرجھا نہ جائے۔
میں سمجھتا ہوں شفیق خاں کا خط تمام بے اسرا کارکنوں کی آواز ہے ایسے مجبور بے بس کارکنوں کی آواز حمزہ شہباز نے اپنے قائد تک پہنچائی ہے ۔دوسری جانب جب الیکشن مہم زو ر شور سے جاری ہے ،کوئی الیکشن تو کوئی عمران خان کے مستقبل بارے جاننا چاہتا ہے۔اسی طرح سب سے اہم سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ آئندہ وزیراعظم کون ہوگا اور الیکشن کون جیتے گا۔سوچا ان سوالوں کاجواب بذریعہ تحریر دیا جائے۔تو قارئین انتخابی ماحول بن چکا ہے اور سیاسی میدان میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار اتار چکی ہیں ، اب 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی راہ میں کو ئی بھی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے پی ٹی آئی اپنے مخصوص سازوسامان یعنی پراپیگنڈے کو اپنا سب سے اہم ہتھیار سمجھتی ہے اور اسی کے بل پر وہ انتخابی میدان میں اتر چکی ہے اور مسلم لیگ ن عملی اقدامات کی حکمت عملی پر گامزن ہے اور منزل کے قریب ہے جبکہ جاننے والے جان چکے ہیں کہ اب میاں نوازشریف پاکستان کے وزیر اعظم ہوں گے اور ان کو چوتھی بار وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کی سعادت حاصل ہوگی عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پی ٹی آئی نے اپنے مخصوص سازوسامان جن میں سوشل میڈیا سرفہرست ہے کے ذریعے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوششیں کی جو سب ناکام ہوئیں۔ اسی طرح اسی انداز میں عمران خان اپنے دور حکومت میں نمائشی اقدامات کرتے رہے جبکہ عملی طور پر عوام کو درپیش حقیقی مسائل جیسے مہنگائی اورغربت کے خاتمے صحت وتعلیم کی سہولیا ت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ پاکستان کو معاشی طور پر ایسی دلدل میں دھکیل گئے کہ اب نواز شریف کے علاوہ کو ئی ایسا مدبر سیاستدان نظر نہیں آتا جو ملک کو ان مسائل سے نکال سکے اس لئے طاقتور حلقے بھی مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ نوازشریف کی راہ میں کو ئی رکاوٹ نہ آنے دیں،اب اور کیا آپشنز رہ گئی ہیں ؟ کیا عمران خان کو دوبارہ اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے کی اجازت دی جاسکتی ہے یا آصف علی زرداری اس ملک کو درپیش مسائل کا حل نکال سکتے ہیں تو یقینی طور پر اب ایسا ممکن نہیں رہا حالات کا جبر سمجھ لیں یا تقدیر کا کھیل نوازشریف اس ملک کی تقدیر ہیں اور یہ سمجھ سب کو آچکی ہے اس ملک میں جس طرح سے نظام انصاف کو نوازشریف کو آئوٹ کرنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا اسکی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے اسکے باوجود اگر مسلم لیگ ن کی قیادت پاکستان کو مسائل سے نکالنے میں سنجیدہ ہے تو یہ قابل تحسین امر ہے یہی وجہ ہے کہ اب عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کی راہ بھی ہموار ہوچکی ہے عام انتخابات کے انعقاد پر سوال اٹھانے والے ناعاقبت اندیشوں کو بھی اس کی خبر ہوچکی ہے اور وہ اپنی بچی کھچی طاقت کیساتھ سعی ناکام کررہے ہیں ۔قارئین بتانے والے بتارہے ہیں کہ اب میاں نوازشریف بہت سنجیدگی کیساتھ پاکستان کی ترقی کیلئے سوچ رہے ہیں اور اس باروہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے مجھے امید ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد چند ماہ میں پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اگے نکل جائیگا اگر ایسا ہونا ہے تو اسکے لئے عمران خان کی رہائی ہونا ممکن نظر نہیں آتا ۔