سپریم کورٹ کے لیے لمحۂ فکریہ
گزشتہ دنوں میں سپریم کورٹ کے چیف صاحب نے ضمانت کے ایک مقدمے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو اعلیٰ عدلیہ نہ کہا جائے بلکہ سپریم کورٹ ہی کہا جائے کیوں کہ آئین میں اس لیے سپریم کورٹ ہی لکھا گیا ہے۔ ماشاء اللہ آئین کی اس حد تک پاسداری ہمیں بھی یہ جان کر خوشی ہوئی۔ اگر چیف جسٹس صاحب یہ بھی فرما دیتے کہ سپریم کورٹ کو اردو میں کیا کہا جائے گا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ بہرحال ہم بھی بصد احترام چیف جسٹس صاحب سے درخواست گزار ہیں کہ 1973ء کے آئین میں (1) 251 شق نفاذِ اردو کے بارے میں ہے کہ پندرہ سال یعنی 1988ء تک اس کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا مگر کئی سال 1988ء کے بعد بھی گزر چکے، یہاں تک کہ چند سال قبل چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے حکم بھی دیا کہ اردو زبان کو نافذ کیا جائے مگر آج تک کسی بھی حکومت نے اس کی جسارت نہیں کی اور سپریم کورٹ نے بھی اپنے حکم پر عمل درآمد کرانا ضروری نہیں سمجھا۔
بہرحال چند سالوں سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو جس طرح متنازع بنایا جا رہا ہے اور فیصلوں کی اشرافیہ کی طرف سے سرِعام توہین کی جا رہی ہے یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
چار سال قبل چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت نے نواز شریف کو دس سال اور احتساب عدالت کے جج صاحب نے سات سال کی سزا سنائی۔ نواز شریف علاج کے بہانے لندن تشریف لے گئے۔ پھر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی جس طرح تضحیک کی گئی۔ رات کو بارہ بجے عدالت لگائی گئی اور ایک سیاسی پارٹی کی حکومت کو ختم کیا گیا۔ یہ فیصلہ ایک پارٹی کے سوا سب جماعتوں کو بہت پسند آیا۔ ان کی تعریفیں بھی کی گئیں۔ اس کے علاوہ الیکشن کرانے کے فیصلے سمیت ان کے تقریباً سب فیصلوں کو متنازع بنایا گیا۔
ایک بار تو ’مولانا‘ فضل الرحمن دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود سپریم کورٹ کے دروازے کے سامنے اپنے حواریوں کو لے آئے بلکہ سپریم کورٹ کے دروازے پر بھی وہ چڑھ دوڑے مگر چوں کہ پی ڈی ایم کی حکومت تھی۔ وزیر داخلہ ثناء اللہ سمیت کسی نے ’مولانا‘ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس میں ایک بات تو واضح ہوئی کہ سپریم کورٹ میں ’فیصلے‘ قانون کے مطابق نہیں بلکہ ’شخصیات‘ کو سامنے رکھ کر اور شخصیات ہی فیصلے کرتی ہیں۔ یہ ایک بہت ہی بڑا المیہ ہے کیونکہ نواز شریف کو جو سزائیں دی گئیں وہ بھی سپریم کورٹ نے ہی دی۔ پھر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ہی ایک سیاسی پارٹی کے اراکین ببانگِ دہل یہ کہتے نظر آئے کہ جب یہ چیف عمر عطا بندیال چلے جائیں گے تو نواز شریف واپس آ جائیں گے۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ جب عمر عطا بندیال ریٹائر ہو گئے اور موجودہ چیف جسٹس نے عہدہ سنبھال لیا۔ تو سب نے دیکھا کہ نواز شریف ’باعزت‘ اور ’باوقار‘ طریقے سے نہ صرف واپس آئے بلکہ مقدمات بھی آناً فاناً ختم ہو گئے۔ اب الیکشن 8 فروری کو ہونے ہیں۔ ایک پارٹی کے علاوہ سب کو کھلی چھٹی ہے۔ جہاں مرضی جلسے کریں۔ ان کو مکمل آزادی حاصل ہے۔
9 مئی کو جو بھی ہوا۔ بہت افسوسناک ہے۔ اس کی جوڈیشنل انکوائری ہونی چاہیے تھی۔ پھر جو بھی سزا کے مستحق ہوتے انھیں ضرور قانون کے مطابق سزائیں دی جاتیں۔
اب ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے دور رکھنے کے لیے تمام جتن ہو رہے ہیں۔ ان کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ اگر ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے مقدمے میں دھر لیا جاتا ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کو اپنا آئینی رول ادا کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ججز کے درمیان اختلافات بھی سننے کو ملے۔ نظام عدل ہی کسی بھی ملک کی سلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔ بلاشبہ عادل تو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے مگر دنیا کے معاملات میں جن صاحبان کو یہ عہدے ملتے ہیں۔ یہ بھی ایک آزمائش ہے کہ کسی سے بھی ناانصافی نہ ہو کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم سب روز آخرت پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت علیؓ اپنے دورِ خلافت میں ایک یہودی کے ساتھ مقدمے میں قاضی کی عدالت میں حاضر ہوئے تو قاضی آپ کے احترام میں کھڑا ہو گیا۔ تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ تمھاری پہلی بے انصافی ہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات اور ملکی تمام اداروں کا احترام عام شہری تو دل و جان سے کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کا دبائو ڈالنا اور مرضی کے فیصلے لینا تو تباہ کن ہے۔ وطن عزیز چند سال سے بہت ہی مشکلات کا شکار ہے۔ مسائل ختم ہوتے نظر بھی نہیں آ رہے۔ سپریم کورٹ سمیت تمام مقتدر حلقوں کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی و ملکی مفاد کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے ججز صاحبان کو قانون کے بعد فیصلے دے کر ان پر عمل بھی کرانا ہو گا۔ الیکشن کے لیے سب پارٹیوں کو ایک جیسا ماحول فراہم کیا جائے تاکہ الیکشن پر بعد میں کوئی بھی انگلی نہ اٹھا سکے۔