سال 2023 : مہنگائی سیاسی بے چینی، بے یقینی کا حامل رہا
اسلام آباد (عترت جعفری)کیلنڈر سال 2023 کا آخری روز ہے ، یہ سال مہنگائی سیاسی بے چینی، بے یقینی، سیاست، قانون ،آئین، عدلیہ اور ایسے اہم واقعات کاحامل رہا اور ان میں سے بعض واقعات ایسے ہیں جن کے اثرات آئندہ برسوں میں بھی جاری رہیں گے، ان 365 ایام میں جس چیز میں سب سے زیادہ تکلیف تھی وہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی تھی، پی ڈی ایم کے دور میں ائی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کیا گیا، اور اس معاہدہ کو لینے کے لیے بجلی گیس، پیٹرولیم، کے ساتھ ساتھ وفاقی بجٹ میں ہیوی ٹیکسیشن کی گئی، بد انتظامی اور غیر موثر نیشنل پرائس کمیٹی، وفاق اور صوبوں کے اندر پرائس میکنزم پر نظر رکھنے کے لیے کسی مؤثر قانونی انتظام کے فقدان کی وجہ سے مہنگائی 40 فیصد کو عبور کر گئی ، دسمبر کے آخری ہفتے کے بارے میں سرکاری طور پر جو بیان جاری ہوا اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح 43.25 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں پر آبادی کی واضح اکثریت دو ڈالر روز کمانے والوں کی صف میں آتی ہے، اس کیلنڈر سال کے دوران پیٹرول ڈیزل کے عروج پر گئے جن میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کچھ کمی ضرور کی گئی ہے، لیکن اس کمی کا کوئی خاص فائدہ عوام تک منتقل نہیں ہوا، ٹرانسپورٹ کے کرائے وہی رہے مرغی گوشت ، انڈے، گندم کا اٹا، سمیت اشیاء خورد ونوش کا افراط زر عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی حد تک پہنچ چکا ہے، ائی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی بدولت جنوری کے پہلے 15 ایام میں انرجی کی کاسٹ میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا، 2023 میں ایک منتخب حکومت نے اپنی معیاد مکمل کی جو کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قائم ہوئی تھی، اور اس سال نگران حکومت ائی جس کے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ہیں اور ان کی کابینہ کام کر رہی ہے، سیاسی محاذرائی تو بہت پہلے سے موجود تھی تاہم نو مئی کے واقعات کے بعد اس نے عروج حاصل کرنا شروع کیا ، اب جب کہ اٹھ فروری کا انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو چکا ہے اور کاغذات نام ذدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہو چکی ہے، نگران حکومت کے ابتدائی 60 ایام میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے ملک افواہوں کی زد میں رہا، اس بارے میں اضافہ اس وقت زیادہ ہوا جب پی ڈی ایم میں شامل کچھ اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات بھی الیکشن منعقد کرنے کے حوالے سے منفی تھے، اسی سال یک جان دو قالب رہنے والی جماعتیں جو پی ڈی ایم کی حکومت میں شامل تھی اب ایک دوسرے کے مخالف کھڑی ہوئی ہیں، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پاکستان ائے اور اب اپنے جماعت کو قیادت فراہم کر رہے ہیں، جبکہ ان کے سخت ترین ناقد عمران خان جیل میں ہیں ، اور ان کی جماعت کو ایک ایسے حالات کا سامنا ہے جو ان کو سیاسی میدان میں برسوں پیچھے لے جائیں گے، سوجھ بوجھ کے فقدان اور عدم توازن نے پارٹی کی شدید نقصان پہنچایا، ڈالر اور غیر ملکی کرنسی اس کی اونچی اڑان سال کے بیشتر حصے میں جا رہی ہے تاہم اب اس میں کمی انا شروع ہوئی ہے، اس سال ایک نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی وجود میں ائی، جو الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہے، اسں سال پیپلز پارٹی انتخابی میدان میں شدت سے مسلم لیگ نون کے ساتھ پنجہ آزامائی کی تیاری کر رہی ہے، پورے سال کے دوران سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں اہم کیس زیر سماعت رہے، مسلم لیگ نون کے میاں نواز شریف کو سکینڈل کے پس منظر میں بننے والے تمام مقدمات سے بری کر دیا گیا، تاہم عمران خان اس وقت سنگین مقدمات میں ملوث ہیں جن میں سایفر کیس توشہ خانہ کیس القادر یونیورسٹی کیس اور اس کے علاوہ نو مئی کے واقعات کے حوالے سے انتہائی سنگین مقدمات ان کے خلاف زیر سماعت ہیں ۔ ملک کی اقتصادی شرح نمو کے حوالے سے اب تک جو اندا ہم عالمی بینک ائی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی کے شرع نموک کے حوالے سے اضافے کے حوالے سے اندازے دو فیصد سے مقامی اندازے سامنے ائے ہیں وہ دو سے تین فیصد تک کے ہیں،اس کے برعکس عالمی مالیاتی اداروں جن میں ورلڈ بینک اور ائی ایم ایف بھی شامل ہے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح دو فیصد سے کم بتا رہے ہیں، ملک کی اقتصادی شرح نمو بڑھے گی یا اس کا کم ہوگی اس کا انحصار ملک منتخب حکومت کے قیام اور معاشرے میں استحکام پر منحصر ہو گا ۔