تحریک انصاف کے ’کھمبے‘ اور کاغذاتِ نامزدگی
سوشل میڈیا کے سازوسامان سے تیار کی دنیا کے سحر میں گرفتار دوستوں کو حقیقی زندگی میں واپس لانے کے لیے بارہاچند حقائق کو اکتادینے کی حد تک دہرانا پڑتا ہے۔گزشتہ کئی مہینوں سے اس کالم کے ذریعے میں یہی کام کیے چلا جارہا ہوں۔ اپنی بات سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جو کہا اسے دہرانا مگر اب بھی لازمی شمار کرتا ہوں۔
کلیدی حقیقت میری نگاہ میں یہ ہے کہ اقتدار واختیار کا کھیل بنیادی طورپر تخت یا تختہ والی جنگ ہے۔ یہ کھیل کسی ’اخلاقی اصول‘ کا پابند نہیں ہوتا۔ اختیارواقتدار کے کھیل کی ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ اس میں کسی دوسرے کی ’شراکت داری‘ برداشت نہیں کی جاتی ’بادشاہ‘ ایک ہی ہوتا ہے اس کی بالادستی للکارنے کی کوشش ہو تو ننگے پائوں مزاروں پرجاکر بیٹے کی فریاد کرنے والا جلال الدین اکبر اپنے ’شیخو‘ کو زندان میں پھینک دیتا ہے۔ پابند صوم وصلوٰۃ اورنگزیب اپنے تینوں بھائیوں کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے اس دنیا میں رہنے نہیں دیتا۔
ریاستی قوت واختیار پر ان دنوں کسی ایک شخص کی شہنشاہی دور جیسی اجارہ داری نہیں رہی۔ نام نہاد جدید ریاستیں بلکہ ’تین ستونوں‘ پر کھڑی بتائی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں تاہم وہ ’ایک ہی ستون‘ پربنائی ’چھتری‘ کے نیچے اپنا کام چلاتی دکھائی دیتی ہیں۔’مقننہ‘ تو عرصہ ہوا ’قانون سازی‘ کا فرض نبھانابھی چھوڑچکی ہے۔پاکستان کو مثال کے طورپر پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانا تھا تو اس کی تسلی کے لیے مطلوبہ قوانین کا مسودہ ریاست کے اس طاقتور ادارے کی جانب سے آیا تھا جس کی پہچان آئین وقوانین کی کتاب نہیں بلکہ ریاست کی حفاظت کے لیے تیار ہوئی تلوار ہے۔ قصہ مختصر 1950ء سے وطن عزیز میں قوت واختیار کا حتمی منبع ’مقتدر‘ کہلاتا ادارہ ہی رہاہے۔ ہمارے اور آپ کے منتخب ہوئے یا ازخود قوت واختیار کے کھیل میں اترے سیاستدان مذکورہ ادارے کے چہیتے’جونیئرپارٹنر‘ ہونے کی تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں۔ ’لاڈلا‘ ہونے میں ناکام ہوجائیں تو ’ووٹ کو عزت دو‘ کی فریاد کرتے ہوئے ایک بار پھر شفقت کے طلب گار بن جاتے ہیں۔ دھتکاردیے جائیں تو ’انھیں‘ نیوٹرل ہونے کی وجہ سے ’جانور‘ پکارتے ہوئے ’ہم کوئی غلام ہیں؟‘ کا ورد کرناشروع ہوجاتے ہیں۔
فریادی نعرے یا خود کو ’شیر بن شیر‘بنانے کی تمنا میں منتروں کی طرح دہرائے الفاظ مگر ایسی حکمت عملی تیار نہیں کر پاتے جو مقتدر کہلاتے ادارے کو سرنگوں کرنے کومجبور کردے۔ ایسے میں 9 مئی 2023ء کے روز رونما ہوئے واقعات ’انھیں‘ چونکادیتے ہیں۔’وہ‘ انھیں ’سیاسی‘ نہیں ’جنگی‘ وار شمار کرتے ہیں اور ’جنگوں‘ میں استعمال ہوئے حربوں کو جنگی حربوں ہی کے ذریعے ناکام بنایا جاتا ہے۔ ’اصولی بنیادوں پر‘ اپنائی ’سیاسی‘ حکمت عملی تخت یا تختہ کے معرکوں میں کسی کام نہیں آتی۔
مذکورہ بالا حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے بارہا اس کالم میں دہراتا رہا ہوں کہ 9 مئی 2023ء کے واقعات نے ’وہاں‘ غضب کی آگ بھڑکادی ہے۔ تحریک انصاف کے دانش مند خیرخواہوں کو ان کے غضب کی تپش کا غیر جذباتی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے اپنی جماعت اور اس کے بانی سربراہ کے ’بچ بچا‘کی راہ دریافت کرنا ہوگی۔دو ٹکے کے رپورٹر کی جانب سے نہایت خلوص سے بیان ہوئے اس خیال پر تحریک انصاف کے دوستوں نے توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ 2011ء سے انھیں مسلسل بتایا جارہا ہے کہ مجھ جیسے ’صحافی‘ حقائق بیان نہیں کرتے۔ حکمرانوں کے قصیدہ گو ہیں۔انھیں لوگوں کو گمراہ کرنے کے عوض حکمرانوں سے لفافے ملتے ہیںاور ’آذرئیجان سے آئی ٹوکریاں‘۔
’بکائو صحافی‘ کے خیالات پر خاص طورپر اس وقت توجہ باکل ہی نہیں دی جاتی جب وہ 60سال کی عمر پارکرچکا ہو۔تحریک انصاف کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کے جنونی حامی بھی اب اس عمر کے ’صحافیوں‘ کی ذہنی صحت پر سوال اٹھاناشروع ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کو اگرچہ نوجوان کی ’تڑپ انقلاب‘ پر کامل بھروسا ہے۔ اس جماعت کی خام خیالی کو منطقی جواز فراہم کرنے کے لیے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کا ایک گروہ "Youth Bulge"یعنی ’نوجوانوں کے انبوہ‘ کا ذکر بھی تواتر سے شروع ہوگیا۔مجھ جیسے فرسودہ ذہن کے حامل صحافیوں کے مقابلے میں یہ دانشور "Data"یعنی کمپیوٹر کے ذریعے جمع ہوئے اعدادوشمار کی بنیاد پر حال اور مستقبل کے نقشے بناتے ہیں۔وہ مصر رہے کہ اپنی جداگانہ سیاست سے تحریک انصاف کے کرشمہ ساز بانی وسربراہ نے پاکستان کی آبادی کا 60فیصد ہوئے نوجوانوں کے دل جیتے لیے ہیں۔وہ اس کے حکم پر ’حاضر حاضر لہو ہمارا‘ثابت کرنے کو بے چین ہیں۔ اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے وہ بے تابی سے 8 فروری 2024ء کا انتظار کررہے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں مبینہ طورپر موجزن ’تڑپ انقلاب‘ کی بابت شاداں محسوس کرنے والوں کو یہ خبطی بڈھا نہایت عاجزی سے سمجھاتا رہا کہ تحریک انصاف کو اقتدار میں واپس لانے کے لیے لازمی ہے کہ اس کے نامزد کردہ امیدوار زیادہ سے زیادہ تعداد میں 8 فروری 2024ء کے دن ہونے والے انتخاب میں حصہ لینے کے قابل ٹھہرائے جائیں۔ اس کلیدی حربے کی جانب مگر کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔فرض کرلیا گیا کہ جیل میں بیٹھا ’پیا‘ جس ’کھمبے‘ کو بھی کھڑا کردے گا وہ بآسانی وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوجائے گا۔ علمی تیاری کے بغیر ریگولر اور سوشل میڈیا کے لیے ہاتھ میں مائیک اٹھاکر اسے لوگوں کے منہ کے سامنے رکھ کر لیے جوابات پر مبنی ’سروے‘ بھی مذکورہ گماں کو درست ثابت کرتے رہے۔
اس بات پر کسی نے توجہ ہی نہ دی کہ ’کھمبے‘ کو بھی قومی یا صوبائی اسمبلی تک پہنچنے کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کرنا ہوں گے۔ یہ حاصل کرنے کے بعد ان کو ایک تجویز کنندہ اور تائید کنندہ بھی درکار ہوگا۔ کاغذات نامزدگی کے علاوہ تجویز وتائید کننددہ بھی میسر ہوجائیں۔ کاغذات نامزدگی خیروعافیت سے ریٹرننگ افسروں تک پہنچا بھی دیے جائیں تب بھی جمع شدہ ان کاغذات کی کڑی جانچ پڑتال ہوگی۔ ہفتے کے دن ’کڑی جانچ پڑتال‘ کے نتائج موسلادھار بارش کی طرح نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ تحریک نصاف کے بانی قائد سمیت تحریک انصاف کے تقریباً ہر اہم رہنما کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامی ہی نہیں بلکہ ان کے چند شدید ترین مخالف بھی مذکورہ عمل کی بابت حیران ہوئے چلے جارہے ہیں۔ میں اگرچہ ایک لمحے کو بھی حیران نہیں ہوا۔
ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے مجھ گھر بیٹھے اور ان دنوں قوت واختیار پر اجارے کے حامل اداروں میں براجمان کسی ایک شخص تک رسائی نہ ہونے کے باوجود کامل یقین تھا کہ تحریک انصاف ’کھمبوں‘ کو بھی انتخابی میدان میں کھڑا نہیں کرپائے گی۔ انھیں اسمبلیوں تک پہنچانا تو بہت دور کی بات ہے۔جو میں سوچ رہا تھا اس کے درست ہونے کی بابت بھی خوش وشاداں محسوس نہیں کررہا۔ انتخاب کا حقیقی مقصد ہی سیاسی جماعتوں کے مابین اپنے پروگرام کی بنیاد پر کڑے مقابلے کے نتیجے میں منتخب حکومت کا قیام ہوتا ہے جو کامل اعتماد سے پانچ برس تک ملک کو اپنی پسند کی راہ پر چلاتے ہوئے ہمیں تحفظ واستحکام پر مبنی اطمینان فراہم کرے۔ انتخاب اگر محض ’رسم انتخاب‘ کی حد تک گرجائے تو ’لاڈلا‘ نظر آتی جماعت کے لیے ’یک فریقی ریس‘ کی بدولت دکھاوے کی حکومت قائم ہوتی ہے جو اقتدار میں دوام کے لیے اپنے ’خالقوں‘ کی نگاہ کرم کی محتاج رہتی ہے۔ 2018ء سے 2022ء تک عمران حکومت کے ساتھ یہی تو ہورہا تھا۔