2024ء کی سیاسی پیش گوئیاں
قارئین کو نیا سال مبارک ہو۔ اللہ یہ سال سب کے لیے بہتری کا سامان لے کر آئے۔ ہمیں بدتر حالات میں بھی بہتری کی امید رکھنی چاہیے لیکن گزرا ہوا سال جس ابتری کا ملبہ چھوڑ گیا ہے اس کو سمیٹنے میں بھی وقت لگے گا۔ پچھلا سارا سال جیسے تیسے روتید ھوتے گزر گیا عدم استحکام عروج پر رہا۔ وہ وہ کام ہوتے دیکھے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اب پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن چکے لیکن قوم تادیر اس کے اثرات بھگتے گی۔ گزرے سال میں معاشرتی ابتری میں تیزی سے اضافہ ہوا طاقت ہی آخری فیصلہ ٹھہری۔ اللہ کرے نئے سال میں ہم استحکام کی طرف بڑھنا شروع کر دیں۔
2024ء کے آغاز میں ہی انتخابی میدان سج رہا ہے جس میں پاکستانی اپنے لیے قیادت کا انتخاب کریں گے۔ معیشت میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں، روپیہ تگڑا ہونا شروع ہو چکا ہے، پاکستان کی سٹاک مارکیٹ مسلسل مندے کے بعد اب تسلسل کے ساتھ تیزی کی طرف گامزن ہے۔ ہمیں سبز انقلاب کی بھی نوید سنائی جا رہی ہے معاشی بہتری کے لیے اپنا آپ بیچا جا رہا ہے بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن سیاسی پنڈت نئے پاکستان کے سیاسی حالات بارے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام لانے کے لیے بڑا سفر کرنا پڑے گا۔ میں ذاتی طور پر مستقبل کے حوالے سے مختلف علوم کے ذریعے دعوے کرنے والوں کی باتوں پر کبھی بھی یقین نہیں کرتا لیکن بطور سیاسی انجینئر حالات و واقعات کا اندازہ لگا کر مستقبل بارے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت عوام کو سب سے زیادہ دلچسپی فروری میں ہونے والے انتخابات کے انعقاد اور اسکے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ہے۔ وہ کاغذات نامزدگی داخل ہونے اور انتخابی عمل شروع ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا الیکشن ہو جائیں گے۔
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے پتھر پر لکیر کھینچنے کے باوجود لوگوں کا انتخابات بارے سوال کرنا اپنی جگہ وزن تو رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام جس بارے میں سب سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں وہ تحریک انصاف کے بانی چئیرمین کے مستقبل کے بارے میں ہے کہ آخر کار قاسم کے ابو کا کیا بنے گا، انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے،ملک کا وزیراعظم کون ہو گا، کیا انتخابات کے نتیجے میں سیاسی استحکام آسکے گا،کیا پاکستان کی معیشت بہتر ہو سکے گی، کیا کاروبار چل پائیں گے،مہنگائی میں کمی ممکن ہو پائے گی،لوگوں کو روزگار مل پائے گا یہ وہ سوال ہیں جو زبان زدہ عام ہیں اور وہ اس بارے میں واضح جواب چاہتے ہیں۔ انتخابات کے حوالے سے تو کہا جا سکتا ہے کہ تاحال ففٹی ففٹی چانس ہیں۔ یہ انتخابات جتنے متنازعہ ہوتے جا رہے ہیں اتنے ہی شکوک وشبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کس وقت کیا ہو جائے۔ جس حساب سے تحریک انصاف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ تھی کہ تحریک انصاف کے کاغذات نامزدگی دوتہائی اکثریت سے مسترد،پھر کس کا مقابلہ کس سے ہو گا؟۔ جیتنے والے بھی ضمیر کے قیدی ہوں گے اور ہارنے والے بھی اپنے آپ کو مجرم تصور کر رہے ہوں گے۔ ایسے انتخابات سے سیاسی استحکام نہیں ہو گا۔ نئے سال میں بھی سیاسی ابتری برقرار رہے گی، نئے سال میں بھی نظر نہ آنے والی قوتوں کی بالا دستی قائم رہے گی، عمران خان جیل میں ہی رہیں گے،نیا سال بھی پی ٹی آئی کے غموں کا مداوا نہیں کر پائے گا تاہم پی ٹی آئی کی نہ مقبولیت کم ہو گی نہ پریشانیاں کم ہوں گی ،عدالتوں پر سیاسی مقدمات کا دباو برقرار رہے گا،بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
بھارت میں ہونے والے انتخابات پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی کاباعث بن سکتے ہیں۔ مودی ہر صورت الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرے گا۔ نئے سال میں بھی پاک افغان اٹ کھڑکّا جاری رہے گا، پاکستان کو دہشتگردی کا سامنا رہے گا،پاکستان میں اگر انتخابات ہو گئے تو مسلم لیگ ن کی سربراہی میں اتحادی حکومت قائم ہو گی۔ پنجاب میں اکثریت ن لیگ کے ہاتھ لگے گی۔ سندھ حسب روایت پیپلزپارٹی کے پاس رہے گا۔ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف میدان مار لے گی۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن برتری حاصل کر لے گی لیکن وہاں بھی اتحادی حکومت معرض وجود میں آئے گی۔
نئے سال میں بھی پاکستان پر بیرونی قرضوں کا دباو برقرار رہے گا۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے مرہون منت رہے گی۔ قسط مل گئی تو چار دن اچھے گزر جائیں گے ورنہ روپیہ دباؤ کا شکار رہے گا۔ 2024ء میں بھی مہنگائی برقرار رہے گی،موسمیاتی تبدیلیاں انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کریں گی،2024ء سیاسی افراتفری کا سال ہو گا۔ بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ریکارڈ پوسٹنگ ٹرانسفر ہوں گی،سیاسی سطح پر غیر معمولی واقعات رونما ہوں گے۔ پاکستان کے ادارے بہت زیادہ زیر بحث رہیں گے۔