• news

مقبولیت اور قبولیت کی جنگ

 جو کچھ 2018ء میں نواز شریف اور انکی جماعت کے ساتھ ہوا آج وہی کچھ پی ٹی آئی اور اسکے بانی چیئرمین کو درپیش ہے۔ حالات و واقعات میں مماثلت ضرور ہے لیکن پس پردہ وجوہات یا حقائق کچھ مختلف بھی ہیں، نواز شریف 2013ء کے بعد جب سے اقتدار میں آئے انکی حکومت گرانے کیلئے کوششیں شروع رہیں عمران خان کی دھرنا سیریز تو حکومت کے ایک سال بعد ہی شروع ہوگئی لیکن حکومت نہ گری، پھر پانامہ لیکس بجلی بن کر حکومت پر آگریں۔ سالوں سے موقع ڈھونڈنے والوں کیلئے اس سے بڑا موقع کیا ہوتا۔ سو وزیر اعظم کو نکال باہر کیا۔ وہ پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا لیکن بتانے کی ضرورت کیا تھی کیونکہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی تھی۔
 ویسے تو تحریک انصاف کی پارٹی اکتوبر 2011ء کے لاہور جلسے سے شروع ہو چکی تھی لیکن اب انہیں اقتدار قریب آتا دکھائی دینے لگا تھا۔ سب سے بڑا پتھر ہٹا کر راستہ صاف کردیا گیا تھا اور پھر جیسے تیسے بھی ہوا اقتدار ہاتھ آہی گیا۔ کیا کیا ہوا،کیسے کیسے ہوا اور کس کس نے کیا کیا، یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ حقائق آشکار ہوچکے اور ہورہے ہیں۔ نواز شریف کو جس عدالتی فیصلے کے ذریعے اتارا گیا اس کا شمار عدلیہ کے متنازعہ ترین فیصلوں میں کیا جاتا رہے گا۔ وقت گزرتا گیا اور پھر حالات نے پلٹا کھایا جس کا بہت سوں کو اندازہ تھا سوائے عمران خان اور ان کی جماعت کے جو مخالفین کو دس سال تک حکومت میں رہنے کا چیلنج دے رہے تھے۔ لیکن اس بار نہ عدالتی نااہلی ہوئی نہ ماضی کی طرح کوئی اور غیر آئینی اقدام ،ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا۔ اسکے بعد جو ہوا اسے کوئی پلان نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جو ہوا اسکے پیچھے ایک ہی شخصیت تھی عمران خان۔ حکومت جاتے ہی سب کی مخالفت کے باوجود اسمبلیوں سے استعفے دے کر باہر آجانا، پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل ہو ،امریکہ پر حکومت گرانے کی سازش ، فوج کو اس میں ملوث کرنے کے الزامات ،سائفر سے ‘‘کھیلنے’’جیسے اقدامات۔ یہ تمام عمران خان ہی کے تو فیصلے تھے۔ اقتدار چھن جانے کے بعد نواز شریف نے بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا لیکن عمران خان تو اس سب میں اتنا آگے چلے گئے کہ اندھی تقلید کرنے والے اپنے حامیوں کو پاکستان کی ریاست اور فوج کے سامنے لاکھڑا کیا اور پھر نو مئی ہوگیا۔
 عمران خان نے اپنے حامیوں کو حقیقی آزادی اور انقلاب کا خواب تو دکھایا لیکن یہ نہ بتایا کہ ایسا انقلاب دراصل ریاست کے خلاف کھلی جنگ اور بغاوت کے مترادف ہے اور ایسے انقلاب کی کوشش تخت یا تختہ ہوتی ہے۔ اور اگر آپ کو تخت نہ ملا تو پھر تختے کیلئے تیار رہیں۔ وہ تو شاید خود بھی یہ بات سمجھ نہ پائے تھے اور پھر تخت کا خواب چکنا چور ہونے پر ان کے انقلابی تختے کے خوف سے کیسے بھاگے، یہ سب نے دیکھا۔ تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 2018ء میں جو حالات نواز شریف اور انکی جماعت کو درپیش تھے جن حالات کا فائدہ عمران خان نے اٹھایا اسی قسم کے حالات آج عمران خان اور ان کی جماعت کو درپیش ہیں۔ فرق یہ ہے کہ نواز شریف کیلئے حالات کسی اور نے پیدا کئے اور عمران خان نے خود اپنے لئے ،اگر وہ اس وقت اس بات کا ادراک کرلیتے کہ جو آج ان کے مخالفین کے ساتھ ہورہا ہے درست نہیں، یہ سب کل ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور وہ کسی کھیل کا حصہ نہ بنتے تو آج نواز شریف کو پانچ سال پہلے اور عمران خان کو آج درپیش حالات کا موازنہ کرنے کی بجائے انتخابات میں وزارت عظمی کیلئے نواز شریف بمقابلہ عمران خان، کا موازنہ کیا جارہا ہوتا ،2018ء میں چلنے والا ٹریلر آج پوری فلم کی صورت میں سامنے نہ آتا اور پھر وہ سیاسی عدم برداشت اور اقتدار کی کرسی واپس چھیننے کی بے صبری میں ‘‘ہر حد ‘‘ تک جانے کے بعد مقبولیت کے باوجود قبولیت کے دائرے سے خارج نہ ہوتے۔سبق تو اسمیں صرف عمران خان کیلئے ہی نہیں، باقی سیاستدانوں کیلئے بھی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن