• news

منگل‘ 19 جمادی الثانی‘ 1445ھ ‘ 2 جنوری 2024ء

سعودی ولی عہد سے عمران خان اور بشریٰ بیگم کو ملنے والے تحائف کی قیمت پر نیب کے اہم انکشافات۔
ایک خبر سامنے آتی ہے تو ادھوری اور نامکمل لگتی اور سمجھ نہیں آتی۔ کڑی سے کڑی ملتی ہے اور خبر سے خبر جڑتی ہے تو بات کی سمجھ آتی ہے۔ کل خبر لگی تھی کہ عمران خان کے اثاثوں میں 5 سال میں 27 کروڑ روپے کا اضافہ ہو گیا۔ اوّل تو خان صاحب کا کوئی ایسا بزنس ہے نہیں۔ اگر تھا بھی تو وزارت عظمیٰ کے منصب پر متمکن ہونے کے بعد ان کی توجہ اْدھر سے ہٹ گئی اور بٹ گئی ہو گی۔ پھر 27 کروڑ روپے کس طرح آمدن میں بڑھ گئے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کے اقتدار میں آ کر اثاثوں کو، آمدن کو پر لگ جاتے ہیں۔ ایک پراپرٹی ٹائیکون کا فکر و فلسفہ ہے کہ وہ فائلوں کو پہیے لگا دیتے ہیں تو فائل ’رْڑھتی ‘‘ چلی جاتی ہے۔ سیاستدان اپنی آمدن کو پر لگا دیتے ہیں جو اڑتی چلی جاتی ہے۔ یوتھ کے لیڈر کا ایماندار اور دیانتدار کا امیج بنا ہوا تھا، وہ بدستور نہ صرف ایماندار ،دیانتدار، صادق اور امین ہیں بلکہ اب تو معصوم بھی ہیں۔ ان کی آمدن معصومیت میں دو تین چند ہو گئی۔ اتنا پیسہ کروڑہا روپیہ کہاں سے آیا؟ ممکنہ طور پر یہ توشہ خانہ ہی ہو سکتا ہے۔ نیب نے اب انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں تحائف کی قیمت جانچنے کا  نظام موجود ہی نہیں۔ ویسے نیب سے یا کسی بھی سیانے سے یہ پوچھ لینا چاہیے کہ اس کے علاوہ جو نظام ہے اس کی نشاندہی کر دیں۔ نیب نے مزید کہا ہے کہ 3 ارب 16 کروڑ کے تحفوں کی قیمت پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ روپے لگائی گئی۔ ان میں سے نصف یعنی نوے لاکھ روپے ادا کر کے تحائف جوڑے نے الگ رکھ لئے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی ادارہ جیولری کے سیٹ کی قیمت نہ جان سکا۔ دبئی سے تخمینہ لگوانے پر معلوم ہوا کہ خزانے کو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔ چلیں کسی کو تو فائدہ ہوا۔ ساتھ ہی یہ سمجھ بھی آ گئی کہ خان صاحب کی آمدن میں 27 کروڑ کا اضافہ کیسے ہو گیا۔ یہ خبر بدستور ادھوری لگتی ہے۔ صرف 27 کروڑ کے اضافے کی بات کی گئی ہے۔مخالفین پوچھ سکتے ہیں،باقی کہاں ہیں۔نیب شاید اگلی قسط میں بتائے۔ 
خان صاحب پہلے نہیں کہتے تھے اب کہیں گے بلکہ کچھ سیاستدانوں کے بیانات دہرائیں گے کہ میرے اثاثے آمدن سے زیادہ ہوئے ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں کوئی میرے اکائونٹ میں رقم جمع کرا گیا ہو گا۔ 
٭٭٭٭٭
سعودی عرب میں اعلیٰ معیار کے سونے کے نئے ذخائر دریافت۔
کسی نے سچ کہا پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ، سعودی عرب اس کی زندہ مثال ہے۔ نیتوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ سعودی ولی عہد وڑن 2030 ء پر عمل پیرا ہیں جس میں تیل پر انحصار کرنا بھی شامل ہے۔ جیسے ہی سونے کے یہ ذخائر دریافت ہوئے نئے سال میں ایسے ذخائر کی تلاش کی پالیسی میں توسیع کر دی گئی۔ یہ ذخائر مملکت کی ترقی اور عوام کی خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ نیتوں کا عمل دخل کیسے کامیابی اور ناکامی کا موجب بنتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سونے گیس پٹرول کی تلاش کی جاتی ہے۔ سونے کی تلاش کے لئے ڈرلنگ کریں تو لوہا نکل آتا ہے۔ پٹرول تلاش کریں تو کوئلہ برآمد ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے سونا نکل آئے تو اسے ’’ریکوڈک‘‘ ہو جاتا ہے۔ سونے کی ایسی بندر بانٹ کہ 6 ارب ڈالر جرمانہ کروا بیٹھے۔ دریافت ہونے والے کوئلے کو بھی غنیمت جانیں کسی کام تو آ رہا ہے۔ بجلی بنانے میں سہی۔ اس سے کچھ تو بن رہا ہے۔ سونے کے زیر زمین لاتعداد بے انت ذخائر موجود ہیں۔ جھوٹ موٹ اشرافیہ اور لوٹ مار مافیا مجبورِ محض ہے کہ وہ ان ذخائر کو اپنے گھروں، ڈیروں اور حجروں میں منتقل نہیں کر سکتا۔ کوئی دلالی بھلے کر سکتا ہے، جس میں منہ کالا ہی ہوتا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا، کوئلہ ایکسپورٹ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے کچھ مدارالمہاموں کی طرف سے بجلی بنانے کے لئے چین سے کوئلہ امپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس سے صاف ستھری صحت بخش بجلی بنتی ہے۔ اپنے کوئلے سے کالی کلوٹی مضر صحت بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ایک بڑے سائنس دان نے کوئلے سے پٹرول نکالنے کی کوشش کی اور کئی ہزار بوتل پٹرول نکل بھی آیا پھر پتہ چلا کہ اس پر لاگت آمدن سے زیادہ ہے۔ بات پھر وہی نیتوں کی ایسے ذخائر جب قوم و ملک مفاد کے لئے تلاش کئے جائیں گے تو کوئلے کی جگہ سونا بھی نکل آئے گا بلکہ سونا ہی نکلے گا۔ 
٭٭٭٭٭
امریکہ میں 48 سال قید کی سزا بھگتنے والا قیدی بے گناہ قرار ،گلین سیمرز کو رہا کر دیا گیا۔
یہ پڑا ہے دنیا کی بہترین جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک کا نظام انصاف، جہاں جج ملازمت اختیار کرتا ہے تو ریٹائرمنٹ زندگی کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔اوکلوہاما کی عدالت کی طرف سے گلین سیمرز کو جب رہا کیا گیا اس دن اس کو قید ہوئے48 سال ڈیڑھ ماہ ہوئے تھے-اس پر 22 سال کی عمر میں قتل کا الزام لگا تھا۔ اب اس کی عمر 70 سال ہو چکی ہے۔کہاں بھرپور جوانی اور کہاں آخری عمر کا بڑھاپا۔امریکہ میں چونکہ سزائے موت کا قانون ہی نہیں ہے اگر یہ قانون ہوتا تو اس کو پھانسی لگا دیا گیا ہوتا۔یہ شخص جیتے جی مر گیا لیکن اپنے نام ایک ریکارڈ کر گیا۔کئی لوگوں کو ریکارڈ بنانے کا بڑا شوق ہوتا ہے اسے ہے یا نہیں لیکن ریکارڈ اس کے نام ضرور ہو گیا۔ریکارڈ یہ ہے کہ امریکہ میں یہ کسی بھی بے گناہ قیدی کی طویل ترین قید ہے۔اوکلوہاما ریاست کے قانون کے تحت بے گناہ سزا بھگتنے والے افراد کو ایک لاکھ 75 ہزار ڈالر ہرجانہ ادا کیا جاتا ہے۔اتنی خطیر رقم سے اس کو جوانی کے دن بھول سکتے ہیں یا قید کا مداوا ہو سکتا ہے؟  اسے اس کی خوش قسمتی سے ہی تعبیر کرنا چاہیے۔کلین سیمرز کو 1974ء میں مقامی سٹور میں ڈکیتی کے دوران ہلاک ہونے والے شخص کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ہمارے ہاں عمر قید کی سزا 14 سال دن رات گن کے سات سال میں ختم ہو جاتی ہے۔ امریکہ میں سزائے موت کا قانون تو نہیں ہے لیکن عمر قید کا مطلب عملی طور پر عمر قیدہے۔ زندگی کی آخری سانس بھی جیل میں قید  کے دوران  ہی لینا ہوگی۔ہم اپنے معاملات کا امریکہ کے ساتھ موازنہ کریں تو کئی مماثلتیں اور تضادات بھی سامنے آتے ہیں۔وکیل کی بجائے جج کر لیں یہ کہاوت پرانی ہو چکی ہے۔ایسے مجرم بھی نظر آئیں گے جنہوں نے کئی لوگوں کے سامنے دن دیہاڑے کئی کئی لوگوں کی جان لی ہوتی ہے، وہ باعزت بری ہو جاتے ہیں اور ایسے بھی کیس ہیں کہ ان کو پھانسی دیئے جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص تو بے قصور تھا، بے گناہ تھا دراصل قاتل فلاں تھا۔سیمرز بے گناہ نکلا اس کو رہا کر دیا گیاہے تو کیا اصل قاتل گرفتار ہو گیا؟ خبر میں اس بارے میں کہیں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ایک شخص کو 48 سال بعد بے گناہ قرار دیا گیا جس جج نے اسے قاتل سمجھ کر عمر قید کی سزا سنا دی تھی، اس نے یہ فیصلہ کس بنیاد پر کیا تھا؟ہو سکتا ہے کہ امریکی ادارے اس کی بھی تحقیقات کریں۔

ای پیپر-دی نیشن