• news

ن لیگ کی پنجاب سے 20خواتین نامزد

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
آرٹیکل 51 کے تحت تشکیل پانے والی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے 266 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جبکہ 60 خواتین اور 10 غیر مسلم پاکستانیوں کو مخصوص نشستوں پر منتخب کیا جاتا ہے۔ 
الیکشن ایکٹ کے تحت خواتین کی 60 مخصوص نشستوں کے لیے ہر سیاسی جماعت اپنے امیدواروں کی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جمع کراتی ہے۔ ترجیحی فہرست میں شامل تمام خواتین امیدواران اپنے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرواتی ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابی نتائج کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کی جیتنے والی نشستوں کے تناسب سے ہر سیاسی جماعت کو مخصوص نشستوں پر کامیاب خواتین ارکان کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر 266 نشستوں پر اگر 60 خواتین کو منتخب کرنا ہو تو کم و بیش ہر ساڑھے چار نشستوں کے بعد خاتون کی ایک نشست سیاسی جماعت کے حصے میں آئے گی۔ یعنی کسی بھی صوبے سے جو جماعت قومی اسمبلی کی نو براہ راست نشستیں جیتے گی اسے خواتین کی دو مخصوص نشستیں بھی ملیں گی اور یوں ان کی تعداد 11 ہو جائے گی۔ اس تناسب سے جو سیاسی جماعت جتنی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی انہیں خواتین کی مخصوص نشستیں بھی اسی حساب سے حاصل ہوں گی۔ 
تاہم یہ تقسیم صوبوں میں مخصوص کی گئی نشستوں کی تعداد کے حساب سے ہی ہوگی۔ یعنی بلوچستان سے صرف چار خواتین مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی پہنچ سکتی ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ سے 10 پنجاب سے 32 اور سندھ سے 14 خواتین قومی اسمبلی کی رکن بن سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں پنجاب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے زور لگاتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کی 60 مخصوص نشستوں کے لیے 459 خواتین نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اب تک سامنے آنے والی ترجیحی فہرستوں کے مطابق مسلم لیگ ن پنجاب سے 20، پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 6, سندھ سے 13، کے پی سے 7، ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ سے چھ اور استحکام پاکستان پارٹی ، جمعیت علماء اسلام پاکستان، جماعت اسلامی اور اے این پی نے کے پی سے چار چار خواتین، استحکام پاکستان پارٹی نے پنجاب سے چار جبکہ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین نے ایک خاتون پر مشتمل فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی ہے۔ 
مسلم لیگ ن نے پنجاب سے قومی اسمبلی کے لیے 20 خواتین کی ترجیحی فہرست دی ہے۔ اس فہرست میںطاہرہ اورنگزیب، شائستہ پرویز، مریم اورنگزیب، نزہت صادق ،مسرت آصف خواجہ، سیما جیلانی، شزہ خواجہ، روبینہ خورشید عالم، وجیہہ قمر، زیب جعفر، کرن ڈار، انوشہ رحمان، طاہرہ ودود فاطمی،آسیہ ناز تنولی، صبا صادق، فرخ ناز اکبر، شہناز سلیم، منیبہ اقبال، عفت نعیم، تمکین اختر نیازی کے نام شامل ہیں۔
 فہرست میں طاہرہ اورنگزیب، شائستہ پرویز ملک اور مریم اورنگزیب کے نام سر فہرست ہیں۔طاہرہ اورنگزیب کو 2008 کے عام انتخابات میں پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر ن لیگ کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب کیا گیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں وہ دوبارہ پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر ن لیگ کی جانب سے رکن قومی اسمبلی بنیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں بھی انہیں پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر ن لیگ کی امیدوار کی حیثیت سے رکن قومی اسمبلی منتخب کر لیا گیا۔ اب بھی پہلی ترجیح ہونے کے باعث وہ مسلسل چوتھی بار خاتون رکن اسمبلی منتخب ہوں گی۔ 
1999 میں پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد جب راولپنڈی میں نواز شریف کے قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور مشرف کیمپ میں شامل ہو گئے تو اس وقت طاہرہ اورنگزیب اور ان کی بہن سینٹر نجمہ حمید کا گھر بیگم کلثوم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا تھا۔ اسی بنا پر طاہرہ اورنگزیب اور ان کے خاندان کو مسلم لیگ ن ہمیشہ سے ترجیح دیتی آئی ہے۔ 
شائستہ پرویز ملک ن لیگ ضلع لاہور کے صدر اور سابق رکن قومی اسمبلی پرویز ملک کی اہلیہ ہے۔ 2013 میں وہ مخصوص نشست پر پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں آئیں۔ 2018 میں وہ دوسری مرتبہ بھی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2021 میں ان کے شوہر کی وفات کے باعث لاہور کا حلقہ این اے 133 خالی ہوا تو شائستہ پرویز نے پہلی بار براہ راست انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچیں۔ اس بار ن لیگ نے انہیں خواتین کی ترجیحی فہرست میں دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔ 
مریم اورنگزیب مسلم لیگی رہنما طاہرہ اورنگزیب کی بیٹی ہیں اور پہلی مرتبہ 2013 میں مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔ پارلیمانی سیکریٹری داخلہ ہونے کی وجہ سے انہیں قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران کافی پذیرائی ملی۔ 2016 میں وفاقی کابینہ کا حصہ بنیں۔ بعد ازاں انہیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنا دیا گیا۔ 
2018 میں بھی وہ ن لیگ کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھیں۔مسلم لیگ ن کی وفاقی سیکریٹری اطلاعات اور ترجمان ہونے کی وجہ سے انہوں نے مشکل دور میں پارٹی کی بھرپور ترجمانی کی۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی حکومت تشکیل پانے کے بعد انہیں ایک بار پھر وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا۔ 
نزہت صادق نے پاکستان کے عام انتخابات، 2008ءمیں خواتین کے لیے مخصوص نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں منتخب ہوئیں۔ وہ 2007 سے 2009 تک قومی اسمبلی کی سب سے امیر خاتون رکن رہیں۔
وہ 2012 کے پاکستانی سینیٹ انتخابات میں خواتین کے لیے مخصوص نشست پر مسلم لیگ ن کی امیدوار کے طور پر ایوان بالا پاکستان کی رکن منتخب ہوئیں۔انہوں نے 11 مارچ 2012 کو اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔
انھیں مسلم لیگ (ن) نے 2018 کے پاکستانی سینیٹ انتخابات میں بطور امیدوار نامزد کیا تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد آزاد قرار دے دیا۔
سینیٹ کے 2018 کے سینیٹ انتخابات میں وہ پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے دوبارہ سینیٹر منتخب ہوگئیں۔ 
وہ 2013ءکے پاکستانی عام انتخابات میں پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کی حیثیت سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔اکتوبر 2017ءمیں، شزہ فاطمہ وفاقی پارلیمانی سکریٹری برائے تجارت اور ٹیکسٹائل کے عہدے پر فائز ہوئیں۔
انوشہ کان رحمان نے 2007ءکے بعد عدلیہ کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ انوشہ خواتین کے لیے مخصوص نشست پر 2008ءکے پاکستانی عام انتخابات میں پہلی بار پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔وہ 2013ءکے عام انتخابات میں خواتین کے لیے مخصوص نشست پر دوسری مرتبہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے مخصوص نشستوںکے لیے ترجیحی فہرست میں وہ خواتین امیدواران بھی شامل ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیگی حلقوں کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور شکووں کی فضا قائم ہوئی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن