نیب کرپشن کا سہولت کار، سزا کا فیصلہ معطل نہ ہو تو امیدوار الیکشن نہیں لڑسکتا: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشیر برائے خزانہ بلوچستان خالد لانگو کیس میں کہا ہے کہ نیب کرپشن کا سہولت کار بنا ہوا ہے۔ مشیر برائے خزانہ بلوچستان خالد لانگو کے عام انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق درخواست پر سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ جب تک سزا کا فیصلہ معطل نہ ہو اس وقت تک امیدوار الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ عدالت نے خالد لانگو کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ خالد ہمایوں لانگو کے گھر سے ٹرکوں کے حساب سے پیسے پکڑے گئے۔ خالد لانگو کے گھر سے 2 ارب 24کروڑ 91لاکھ روپے برآمد ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خالد لانگو عام انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں، فیصلہ معطل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان سے ایسے لوگوں کو انتخابات لڑنے سے دور رکھنا چاہیے۔ آپ کے موکل کو تو جیل کے دروازے کی طرف جانا چاہیے۔ کیا بلوچستان کے پیسے مزید چوری کرنے کے لیے الیکشن لڑنا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کس دنیا میں رہتے ہیں آپ؟۔ ایسے لوگ بلوچستان کے دشمن ہیں۔ نیب کی تاریخ میں کسی کو اتنی کم سزا نہیں ہوئی ہوگی۔ مہربانی فرمائیں بلوچستان کے لوگوں کو بخش دیں۔ کیا نیب آپ کے موکل کے کنٹرول میں تھا جو اپیل دائر نہیں کی گئی؟۔ بلوچستان میں ایک سڑک تک نہ بن سکی۔ ایسے لوگ ہی بلوچستان کو کھا گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اس شخص کے اتنے زیادہ تعلقات ہیں جو نیب اپیل دائر نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ق) کے مرحوم رہنما خادم حسین کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی درست قرار دیدی۔ محمد اختر خادم عرف خادم حسین 2008 میں این اے 188سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور انہیں ہائیکورٹ نے بی اے کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اس اپیل پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے مرنے کے بعد بہتر ہے کہ مقدمہ نہ چلایا جائے، جعلی ڈگری کا معاملہ درخواستگزار کے مرنے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کیس کا کوئی فوجداری پہلو ہے؟ اگر ہے تو سن لیتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ لواحقین کا اصرار ہے کہ مقدمہ کو سن کر جعلی ڈگری کا دھبہ ختم کیا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواستگزار زندہ ہوتے تو کچھ ثابت ہوسکتا تھا، مرنے کے بعد لواحقین درست نام کیسے ثابت کریں گے؟۔