• news

سال نوکا آغاز‘ امت مسلمہ کی بے حسی

دنیا بھر میں انگریزی سال نو 2024ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ سال  2023ء پاکستان کیلئے کیسا ثابت ہوا؟ من حیث القوم ہم نے کیا کھویا‘ کیا پایا؟ شاید یہ سوالات اتنی آسانی سے بھلا نہ پائیں کہ گزرے سالوں کے مقابلے میں 2023ء محرومیوں‘ نفرتوں‘ سیاسی بے یقینی‘ بے روزگاری‘ بھوک‘ مہنگائی‘ بیماریوں‘ معاشی و اقتصادی بدحالی اور مالی عدم استحکام کا بدترین سال رہا۔ قوم کو پریشانیوں اور بے انصافیوں کی دلدل میں ایسا پھنسایا گیا کہ اس کے ملک پر مرتب ہونیوالے ’’لانگ رن‘‘ اثرات شاید اب جلد زائل نہ ہو سکیں تلاش معاش کیلئے کشتیوں پر سوار وہ 500 نوجوان  کو جنہیں سمندر نے نگل لیا‘ قوم کبھی نہیں بھلا پائے گی۔ دوسری جانب امت مسلمہ کے لئے بھی 2023ء امتحانات کا سال تھا۔ عدم اتحاد و اتفاق‘ طاقتور عالمی قوتوں سے مفاد پرستانہ مشروط تعلقات اور اپنے اپنے اقتدار کے تحفظ پر کئے معاہدوں کو دوام بخشنے کیلئے دنیا کے مظلوم مسلمانوں پر صہیونی قوتوں کے ڈھائے مظالم پر 52 اسلامی ممالک نے بھی زبان خاموش رکھنے کے عہد کو بھرپور نبھایا۔ اسرائیلی وحشی افواج کی نہتے اور مظلوم بے گناہ فلسطینی معصوم بچوں‘ خواتین‘ مریضوں‘ معذوروں اور ہسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں پر وحشیانہ بمباری‘ 21 ہزار 8 سو بے گناہ فلسطینی افراد کی شہادتیں‘ لاکھوں ننھے منے بلکتے بچوں کے جسموں پر لگے بمبوں کے زہریلے ٹکڑے اور کرچیاں دیکھنے کے باوجود محض خانہ پوری احتجاج اور زخمیوں سے اظہار یکجہتی تو کیا مگر عملی طور پر خاموشی کو ترجیح دی۔ 
انسانی حقوق کی تنظیم Mediterranean Human right آبزرویٹری کی رپورٹ میرے سامنے ہے جس میں غزہ کی تازہ ترین صورت پر اسرائیلی فوج کی وحشت و بربریت کے حوالے سے متعدد حیرت انگیز انکشافات کئے گئے ہیں۔ بڑا انکشاف یہ کہ اسرائیلی آرمی کی صہیونی بزدل فوجوں نے غزہ کے اندر داخل ہو کر بے گناہ فلسطینی خواتین‘ بچوں اور بزرگوں کا سامان چوری کرنا اب شروع کر دیا ہے۔ چوری شدہ اشیاء میں سونا‘ رقوم‘ ڈالرز‘ موبائل فونز‘ لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس شامل ہیں۔ رقوم سمیت جن کی قیمت کئی ملین ہے‘ مگر اس مکروہ اور غیرانسانی انتہائی نفرت انگیز عمل کے باوجود امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ پر سلسلہ وار حملے جاری رکھنے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل کو کانگریس کی منظوری کے 147 ملین ڈالر سے زائد کی مالیت کے اسلحہ کی منظوری دے دی ہے۔ ظلم و بربربت کی یہ داستاں یہاں ختم نہیں ہوتی‘ مظلوم بچوں اور غزہ میں عمارات کے نیچے دبے افراد کو باہر نکالنے کے دلخراش مناظر دیکھنے کے باوجود مغربی ممالک اسرائیل سے بھرپور عملی یاری نبھا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ شہید اور انکی نسل کشی کیلئے صہیونی اسرائیلی فوج کو جدید اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ کہ یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے عالمی ادارہ کے سامنے ہو رہا ہے جبکہ سلامتی کونسل تاہنوز جنگ بندی میں ناکام چلی آرہی ہے۔ دیگر مظلوم ممالک کی طرح 1947ء سے ایسی ہی صورتحال مقبوضہ کشمیر کی ہے جس پر بھارت ظلم و بربریت کے تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ مظلوم کشمیریوں کی اپنی ہی سرزمین پر ان کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جا چکا ہے۔ مودی سرکار کی ہٹ دھرمی آرٹیکل 370 کی خصوصی حیثیت کی غیرقانونی حیثیت اور بزدل بھارتی افواج کی نہتے کشمیریوں اور خواتین‘ بچوں پر گزشتہ 16 ہزار 11 دنوں سے مسلسل بمباری‘ 81 برس سے معرض وجود میں آئی یو این او کو کیا نظر نہیں آرہی؟ ایسی اقوام متحدہ کونسل کا کیا فائدہ جو گزشتہ 80 برس سے مظلوم کشمیریوں کے جائز حقوق انہیں نہیں دلا سکی۔ دور چونکہ ’’ویٹو پاور‘‘ کا ہے اور اس پاور پر بھی امریکہ اور مغربی قوتوں کا کنٹرول ہے اس لئے مظلوم کشمیری کب آزادی حاصل کر پائیں گے؟ یہ وہ آج تلخ سوال ہے جس کے بارے میں نام نہادمہذب دنیا کو 2024ء کے آغاز پر سوچنا ہوگا۔ 
بھارت کی مودی سرکار نے دنیا کی کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے اب نیا ڈرامہ رچایا ہے۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی مودی سرکار نے پاکستان سے اگلے روز یہ مطالبہ کیا ہے کہ نام نہاد منی لانڈرنگ میں ملوث جماعت الدعوہ کے امیر پروفیسر حافظ سعید کو جلد از جلد انکے حوالے کر دیا جائے کہ عالمی شدت پسندوں کی فہرست میں ان کا نام شامل ہے۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی مودی سرکار کی جانب سے ایسا بھونڈا مطالبہ اس بات کا غماز ہے کہ بھارت نیا تنازعہ شروع کرنے کی تیاری کر چکا ہے۔ اس آگ کو بھڑکانے میں سب سے کلیدی کردار پاکستان میں سابق بھارتی ہائی کمشنر ’’شرت سبھروال‘‘ ادا کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پروفیسر حافظ سعید کو بھارت کے حوالے کرنا بھارت کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی بھارت اور پاکستان کے مابین مجرموں کے تبادلے کا سرے سے کوئی معاہدہ ہی موجود نہیں۔ سابق سفارت کار اگر ایسی باتیں کرے تو اسکے علم اور اسکی سفارت کاری کا فوری اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 
آخر میں اندوہناک خبر۔ تحریک آزادی کشمیر کے رواں دوراں اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کیلئے اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ گزارنے والے ممتاز کشمیری رہنماء پروفیسر نذیر احمد شال اگلے روز یہاں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ جنازہ میں مختلف برطانوی کشمیری تنظیموں کے رہنمائوں‘ کمیونٹی لیڈروں اور عام کشمیری اور پاکستانی افراد کی بھاری تعداد سمیت پاکستان ہائی کمیشن لندن میں ڈپٹی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل عزیز اور ہائی کمیشن عملہ نے خصوصی شرکت کی۔ 

ای پیپر-دی نیشن