• news

ماں ماں اور ماں

میرے پیارے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بار اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ علیہ السلام کی قبر مبارک کے پاس سے گزرے فاتحہ پڑھی اور فرمایا :اگر میری ماں زندہ ہوتیں اور مجھے پکارتیں‘ محمد!اور اگر میں حالت نماز میں بھی ہوتا تو نیت توڑ کر جواب دیتا۔
ایک دفعہ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟تو آپ نے فرمایا تیری ماں پھر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکے بعد کون۔فرمایا تیری ماں۔ تیسری بار پھر پوچھا تو فرمایا تیری ماں۔ چوتھی بار استفسار پہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تیرا باپ بھی۔خالق کائنات نے جس ہستی کے وجود سے تجھے تخلیق کیا ہے اس کا حق ہی سب سے بڑھ کر ہونا تھا۔
میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اللہ کی بات ہے جو قرآن میں ہے۔ اسکی عملی تفسیر میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی یے۔ میرے آقا نے فرمایا تیری جنت تیری ماں کے قدموں تلے ہے۔ میم کے حرف سے شروع ہونیوالے تمام لفظ کائنات کے سب سے پیارے گہرے اور اپنائیت کا خزانہ لیے ہوئے ہیں۔
میم سے محمد میم سے ماں اور میم سے محبوب۔
محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار کائنات کا سب سے پہلا حق ہے اور اسکے بدلے ہر تعلق اور اس کے بعد ہر رشتے سے محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ دنیاوی رشتوں میں ماں سے بڑھ کر کوئی دوسرا محبوب نہیں ہوتا۔
 ناتواں کمزور اور بے بس 
ایک بچہ رب کائنات کے بعد صرف اور صرف ماں کی ہستی کا محتاج ہوتا ہے۔ ماں اپنے وجود سے اسے اس دنیا میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی طاقت اور توانائی بخشتی ہے۔ ماں کی ہستی بچے کے لیے پہلی اور آخری پناہ گاہ ہوتی ہے جس کے دامن سے اس کی تمام ضروریات اور خواہشات پوری ہوتی ہیں۔ 
ماں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ 
اس کائنات کی تمام مائیں یکساں محبت اور احترام کے قابل ہیں۔ آج میں آپکے سامنے ایک عظیم ماں کا ذکر کروں گی کہ جنہوں نے زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر کیسے سرخروئی کی منزل حاصل کی اور نہ صرف ایک مضبوط باہمت اور باکردار ماں کا کردار ادا کیا بلکہ عملی زندگی میں ایک مرد کی سی دلیری اور بہادری بھی دکھائی اور اپنی زندگی کو اور اور بچوں کی زندگی کو کامیاب کرنے میں آخری حد تک تگ و دو کی۔
اختر سلطانہ اپنے ہی گاؤں میں ایک استاد تھیں جس دور میں انہوں نے تعلیم حاصل کی اس دور میں پڑھنا پڑھانا چند ایک خاندانوں ہی کی وراثت سمجھا جاتا تھا۔ چونکہ باپ پڑھا لکھا تھا اس لیے اس نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا پانچوں بیٹیاں استاد بنیں۔ 
اختر سلطانہ سب سے بڑی تھیں 
استاد بننے کے فورا بعد اپنے کزن سے شادی ہو گئی جو کہ اس دور کا بنک آفیسر تھا۔دونوں کی جوڑی کمال تھی۔ خوبصورت، تعلیم یافتہ اور مہذب افراد کا ملن ایک کمال شہکار ہوتاہے۔ اس دنیا میں کچھ لوگوں کے حصے میں خوشیاں بہت کم وقت کیلئے آتی ہیں۔ہوا کے جھونکے کی طرح بہار آتی ہے اور خزاں تمام عمر اپنے حصار میں رکھتی ہے۔شادی کے آٹھ سال بعد اختر سلطانہ کے شوہر محمد کوثر خان اس دنیا سے چلے گئے۔ اس وقت انکے چار بچے تھے۔دکھ اور غم کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔  صدمہ اس قدر گہرا تھا کہ وہ گرتیں اور بے ہوش ہو جاتی تھیں۔ پھر تین ماہ بعد اللہ نے ایک اور بیٹا دیا جو ان کے غم میں جیسے اللہ کی طرف سے ایک آسرا بن کے آیا تھا۔ ہر وقت اسے سینے سے لگائے رکھتیں 
اپنے غم کو اس بچے کے چہرے پہ پھیلی معصومیت سے کم کرتیں اور یوں زندگی گزرتی گئی۔اس بہادر عورت نے اپنے پانچ بچوں کی تربیت ماں اور باپ بن کر کی۔ معاشی طور پہ مشکلات کم تھیں۔ بھائی اور بہنوں کا ساتھ میسر تھا جو ان کی زندگی میں آسانیاں دینے کیلئے اپنی طرف سے کوشش کرتے رہے۔ اپنے محروم شوہر کے نام پہ ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا۔تمام عمر گاؤں کے بچوں کو پڑھاتی رہیں اور عزت کماتی رہیں۔
استانی جی اختر سلطانہ کی زندگی عام عورتوں والی زندگی نہیں تھی۔ ایک باکردار عورت کی ایسی زندگی تھی جس نے اپنے مرد کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنی ذاتی زندگی کو صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیے وقف کر دیا ان کی تعلیم اور صحت پہ توجہ دی اور انہیں ایک کامیاب انسان بنایا۔ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے علاقے میں ایک باوقار خاتون کے طور پہ جانی پہچانی جاتی تھیں۔ سب استاد کے ناطے عزت کرتے اور وہ بھی ہمیشہ عزت سے پیش آتیں دوسروں کی مدد بھی کرتیں۔
معززین قارئین! 
زندگی کا ہر لمحہ موت کی طرف پیش قدمی کا سفر یے۔ جو آیا ہے اس نے جانا ہے۔ زندگی کا سفر آسانیوں سے گزرے یا مشکلات درپیش ہوں، ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے۔پچھلے تین سالوں سے استاد محترمہ اختر سلطانہ بیمار تھیں۔ شوہر کے انتقال کے تین ماہ بعد ان کی گود میں اللہ نے جو بچہ دیا تھا وہی بچہ اب تین سال سے ماں کو اپنے سینے سے لگائے کبھی شہر اور کبھی گاؤں لیے پھرتا تھا کہ ماں کا دل بہلا رہے۔
اسے اپنی بیماری کا خیال نہ رہے۔ 
شائد ہی کوئی مہنگے سے مہنگا اور بڑے سے بڑا علاج نہ ہو جو اس نے اس دوران ماں کا نہ کروایا ہو۔
اسکی بیوی سے میری ایک دن بات ہو رہی تھی اس کے یہ الفاظ جیسے میرے دل میں چسپاں ہی ہو گئے۔ کہنے لگی ثوبیہ ماں کیلئے  تو جان بھی حاضر ہے۔
میں سمجھتی ہوں ایسی شریک سفر کا ہونا کسی بھی مرد کی زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے جو اپنے مرد کو اس کی ماں کی محبت میں سرخرو ہونے کیلئے اس کا ساتھ دیتی ہے۔ اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے اسے آسانیاں دیتی ہے۔ 
زویا کہہ رہی تھی ثاقب خود امی کے زخم پہ پٹی کرتے ہیں۔ شوگر کی وجہ سے زخم مندمل نہیں ہوتے انہیں بیحد فکر یے۔ انہوں نے اپنے آفس کی ٹائمنگ بھی بدل دی ہے دوسرے شہر نہیں جاتے کہ کہیں امی کو کچھ ہو نہ جائے۔اختر سلطانہ اپنے منجھلے بیٹے باسط خان کے پاس رہتی تھی ۔باسط خان کی بیوی ناہید نے جس محبت اور سعادت مندی سے اپنی ماں جیسی ساس کی خدمت کی اس کا صلہ تو صرف اور صرف رب العالمین کے پاس ہے لیکن میں سمجھتی ہوں پورا خاندان ان کا سدا مقروض اور ممنون رہے تو کم ہے۔ ایسی بہوئیں جن کے دل میں خوف خدا ہو، انہیں اپنے بزرگوں کی خدمت کا شرف ملتا یے اور صلہ بھی۔ 
میں یہاں اپنی دوست ڈاکٹر پونم گوندل کا ذکر بھی کروں گی جو ہر تقریب میں ہمیشہ یہ کہہ کر جلدی چلی جاتی ہیں کہ میری ساس بیمار ہیں میں ان کے پاس بیٹھنا اور ان کیلئے کچھ کرنا ہر دوسرے کام سے بہتر سمجھتی ہوں۔صلہ رحمی، ہمدردی، ایثار اور خلوص نیت سے اپنی وابستگیاں نبھانے والے یہ ہمارے پیارے ہمارے لیے آئیڈیل ہیں ان کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ہر گزرتے لمحے ہر ڈوبتے سورج کے ساتھ میرے دل میں دنیا کی بیثباتی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ میں ہر چہرے کو عجیب سوگواری سے دیکھتی ہوں مجھے ہر چہرے پہ دکھ ہوتا یے یہ ہنستا کھیلتا چہرہ ایک دن ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے گا۔ اس بیثباتی کا اثر میرے اندر سے ہر قسم کی نفرتیں عداوتیں حسد منافقت اور کینہ نکال دیتا یے۔ مجھے لگتا یے میری زندگی محبت کیلئے کم ہے مجھے میرے اندر کے خلوص کو ظاہر کرنے کیلئے جو وقت مل رہا ہے یہ میرے لیے غنیمت ہے۔ 
میری زندگی محبت کیلئے کم ہے۔
میں نے جانا یے مجھے یہ جو وقت درکار ہے اسے میں کسی قسم کے منفی احساس کے تابع نہیں گزار سکتی جو مجھے چھوڑ کے چلے گئے میں انہیں اب کبھی واپس نہیں بلا سکتی 
جو میرے پاس ہیں انہیں ان کی اہمیت اور قدر سے آشنا کروا سکتی ہوں۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم 
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن