ہفتہ ‘ 23 جمادی الثانی‘ 1445ھ ‘ 6 جنوری 2024ء
اڈیالہ جیل میں عمران خان کی الیکشن کمیشن کے ارکان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں۔
وزارت عظمی کے منصب پر آنے سے پہلے، اس منصب پر متمکن ہونے کے دوران اور اس کے بعد خان صاحب کی دھمکیوں کے بارے میں دیکھا جائے تو ان کی تعداد کم از کم اتنی تو ہوگی جتنے لیڈر آج کل خان صاحب کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔تین شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی اور فواد چوہدری تو ہم جیل بھی ہیں۔تازہ ترین دھمکی ان کی طرف سے الیکشن کمیشن حکام کو دی گئی۔ وہ جب عمران خان پر توہین الیکشن کمیشن کے کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے جیل میں گئے تھے تو وہاں سماعت کے دوران خان صاحب برہم ہو گئے اور ان کی طرف سے انگشت شہادت لہراتے ہوئے کہا ، تم سب کی شکلیں پہچانتا ہوں، نام بھی معلوم ہیں۔ اقتدار میں آکر تم پر آرٹیکل چھ لگاؤں گا تم جس کے کہنے پر سب کر رہے ہو وہ تمہیں بچا نہیں سکے گا۔وزارت عظمی کے دوران خان صاحب امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں بھی مسل دکھاتے ہوئے کہا،جاتے ہی نواز شریف کا جیل کے کمرے سے اے سی اتار دوں گا۔جج زیباچودھری کو جلسہ عام میں تڑی لگا دی اور پھر لاہور میں ایک جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خان صاحب نے کہا "دیکھ لواں گا "حکومت میں آ کرتم پر آرٹیکل چھ لگواؤں گا۔ خان صاحب اگر اقتدار میں آ جاتے ہیں تو پھر ان کا کیا بنے گا جن کو دھمکیاں لگائی گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب نے جے آئی ٹی اور الیکشن کمیشن کے ممبران کے سامنے یہ سوال رکھا ہو؛ میں اقتدار میں آیا تو تمہارا کیا بنے گا کالیا۔منے کے ابابار بارکہتے ہیں،حکومت میں آ کر آرٹیکل چھ لگاؤں گا۔"حکومت میں آنے کے"۔بلی کو چھیچھڑوں کیخواب؟۔اور وہ بھی کسی نے کیاکہا ہے "وہ" چوری سے جائیہیرا پھیری سے نہ جائے۔ -خان صاحب کی وزارت عظمیٰ جاتی رہی،چیئرمین شپ نہ رہی،گھر سے جیل گئیلیکن "پھنے خانی "نہ گئی۔
٭…٭…٭
ن لیگ اورپی ٹی آئی وہ کام نہیں کرسکتی جو پیپلز پارٹی کرسکتی ہے، بلاول۔
بلاول بھٹو زرداری فاتح الیکشن بننے کی مہم پر نکلے ہیں پہلا مورچہ انہوں نے لاہورکوبنایا ہے۔اس مقصد کے لیے لاہور میں ان کو تازہ دم جرنیل مل گئے ہیں جومیدان سیاست میں مہاتجربہ رکھتے ہیں۔ان میں ایک تو چوہدری غفور ہیں جو کبھی مسلم لیگ ن میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ میاں شریف کو اوتار سمجھتے تھے انکی وفات پر کئی روز قبر پر مجاوری کرتے رہے۔ان کے پاس روٹھے یار کوناچ کر منانے کا بھی فن ہے۔بلاول نے انتخابی مہم کے دوران تیس جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔انتخابات میں 34 دن باقی بچے ہیں گویا بلاول صاحب روزانہ ایک جلسہ کیا کریں گے۔جب کہ چار دن ریسٹ کریں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گڑھ لاہور میں کھڑے ہو کر نواز شریف پر وار کرتے ہوئے کہا کہ دل کی تکلیف ہوتی ہے تو لندن بھاگ جاتے ہیں، انہیں کہا بھی تھا لندن جانے کی ضرورت نہیں، کراچی میں اسپتال موجود ہے۔ اب ہم رائیونڈ میں بھی آپ کے مفت علاج کے لیے اسپتال بنائیں گے۔بلاول کی یہ بڑی فراخ دلانا پیشکش ہے۔یہ جو ہسپتال بنائیں گے اس میں دوائیوں کے ساتھ ساتھ شرجیلی شہد بھی دستیاب ہوگا۔ان کے ایک چچا ڈاکٹر عاصم ہوا کرتے تھے۔ وزارت ان کی صحت کی تھی لیکن وہ سی این جی میں مہارت خاص رکھتے تھے۔سی این جی پمپوں کیٹوکن تقسیم کرنے کی شہرت عام پائی۔انہوں نے بھی بڑے بڑے ہسپتال بنائے جب زیر عتاب آئے تواپنے علاج کے لیے باہر جانے کی درخواست دے کر چلے بھی گئے تھے۔دوسرے چچا مظفر ٹپی علاج کے لیے گئے ابھی واپس نہیں آئے۔اچھا ہے بلاول ہاسپٹل بنائیں جن میں ان کے چچاؤں کے بھی علاج ہو سکیں گے۔والد نامدار زرداری صاحب کو بھی بار بار دوائی لینے کے لیے دبئی نہیں جانا پڑا کرے گا۔ ایسا کیا کام ہے جو مسلم لیگ نون اور پی ٹی ائی نہیں کر سکتی لیکن بلاول کی پیپلز پارٹی کر سکتی ہے؟۔پیپلز پارٹی حکمرانی کر سکتی ہے۔ وہ تو نون لیگ نے بھی کی بلکہ ان سے کوئی دو تین مرتبہ زیادہ ہی کی۔پی ٹی آئی بھی ایک دفعہ کر چکی ہے۔عدالتوں کا" احترام" بھی تقریبا ایک دوسرے کے برابر ہی کیا جا چکا ہے۔ایک نے جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت کا دوسری نے جسٹس راشد عزیز کی عدالت کا "احترام" کیا تھا۔وہ کیا کام ہے جو صرف پیپلز پارٹی ہی کر سکتی ہے۔ آپ بھی سوچیں ہم بھی سوچتے ہیں۔ جو پہلے سوچ لے وہ دوسرے کو بتا دے۔
٭…٭…٭
سبزباغ نہیں دکھانا چاہتا۔ جو کہیں گے کر کے دکھائیں گے، نواز شریف۔
ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج کے سیاست دانوں تک سب سبز باغ دکھا کر لوگوں کو اجڑے پجڑے باغ میں لے جاتے رہے ہیں۔وہاں پہنچ کر لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ سبز باغ کے بجائے ہم کالے باغ میں بلکہ کالے پانی آگئے ہیں۔روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ وہ کون سا باغ تھا۔پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیں گے، 1200 سی سی ہائی بریڈ گاڑیاں درآمد کی جائیں گی، یہ کس نے کہا تھا؟پانچ کروڑ نوکریاں 50 لاکھ گھر یہ تو بالکل فریش فریش تازہ تازہ خوشبودار باغ ہی نہیں لہکتا مہکتا خوشبوئیں بکھیرتا گلشن و گلستان بھی تھا۔آنکھیں کھولیں تو خود کوبھولے بادشاہوں نے بیاباں میں پایا۔الیکشن آنیوالے ہیں سیاستدانوں نے اپنی زنبیلیں پھر سبز باغوں سے بھر لی ہیں۔عوام ہر بار کی طرح ایک بار پھر تصور میں سبز باغوں کے وعدوں کی بانہوں میں جھولتے ہوئے نظر آئیں گے۔شیخ رشید کی کوئی بڑی پارٹی نہیں ہے ننھی منی پارٹی کی وہ خود ہی سربراہی کرتے ہیں خودہی اس کے چیئرمین ہیں خود صدر ہیں خود سیکرٹری ہیں خود ہی خزانچی ہیں اور خود ہی پارٹی کے ارکان ہیں۔گویا شیخ رشید صاحب ایک شخص نہیں ایک انجمن ہیں۔ پہلے بھی حیثیت ان کی کم نہیں تھی لیکن چلا کاٹنے کے بعد شیخ چلا کہلوائے، شیخ چلی کی طرح کبھی کبھی خواب دیکھ لیتے ہیں۔ اب ان کی طرف سے کہا گیا مولا نے چاہا تو راولپنڈی میں قلم دوات کی کامیابی تاریخی ہوگی۔اس کے لیے انہوں نے بندوبست بھی کر لیا ہے۔عمران خان کی طرف سے تین بار میسج بھیجا گیا کہ شیخ رشید کو سپورٹ نہیں کیا جائے گا۔اس پر شیخ صاحب نئے نیم چیئرمین گوہر کے پاس جا پہنچے، ان کی چمی لے کر باور کروایا کہ میں دل و جان سے اعتقاد و ایمان سے خان صاحب کے ساتھ تھا اور رہوں گا۔ جیت کر سیٹ خان صاحب کے قدموں پہ نچھاور کر دوں گا۔اب شاید خان صاحب کا دل پسیج جائے۔ایسا انہوں نے 2002ء کے الیکشن میں نواز شریف کے بارے میں بھی کہا تھا، دو سیٹیں جیتیں اور دونوں مشرف کے قدموں میں رکھ کر وزیر بن گئے۔جوسبز باغ نہ دکھائے، وعدے نہ کرے اور وعدے پورے کر دے تو پھر سیاست دان تو نہ ہوا۔
٭…٭…٭
سعودی عرب میں سیاحوں کو مطلوبہ سہولتیں فراہم نہ کرنے پر330ہوٹل بند۔
یہ ہوتا ہے قانون کااطلاق، یہ ہوٹل مکہ اور مدینہ میں واقع ہیں۔ جہاں زیادہ تر اللہ کے مہمان ہی جاتے ہیں، ہوٹل والوں نے یہ جواز پیش نہیں کیا کہ یہ ہمارا اور اللہ کے مہمانوں کا معاملہ ہے حکومت کیوں مداخلت کر رہی ہے۔ویسے ہمارے ہاں اور دنیا بھر میں ہوٹلنگ انڈسٹری میں دو سے لے کر دس نمبری تک اور چار سو بیسیاں ہو رہی ہیں۔ اووربکنگ کی صورت گنجائش سے زائد بیڈ لگا دیئے جاتے ہیں۔ دنیا میں ایک ہی سیون سٹار ہوٹل ہے۔ برج العرب دبئی میں، اس میں کونسی سہولت ہے جو نہیں ہوگی، سمندر میں ہوٹل ہے اور بیسمنٹ کے کمروں اور ہالز سے سمندری جانور اچھلتے کودتے ، لپکتے جھپکتے نظر آتے ہیں۔ ہر کمرے کے دروازے پر خدمت گزار ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔5 سٹار ہوٹلوں کی دنیا میں تعداد، لا تعداد ہے۔ ایک نمبر کے ساتھ دو نمبر فائیو سٹار ہوٹل بھی ہیں۔ ان کی تعداد لا تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ نقلی یا دو نمبر اس طرح کہ ہوٹل کی پشیمانی پر ہوٹل کے نام کے ساتھ 5سٹار لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل ہوٹل5سٹار نہیں ہوتا۔ ہوٹل کے نام کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں سہولتیں3سٹار کی ہوتی ہیں۔ پوچھا جائے تو ہوٹل انتظامیہ یہی بتاتی ہے۔ کہ یہ ہوٹل کا نام ہے کام تھری سٹار والا۔ کیسی کیسی دس نمبریاں اور چار سو بیسیاں ہو رہی ہیں۔