سول ہسپتال گوجرانوالہ اور پرویز الطاف‘ دونوں چلے گئے
گوجرانوالہ شہر کے تقریباً 100سال سے زائد پرانے مگر اچھی طرح سے فعال سول ہسپتال کے بارے میں لکھنے کا ارادہ تھاکہ جسے چند یوم قبل پنجاب کے وزیر اعلی کے دورہ گوجرانوالہ کے موقع پر شہر سے باہر مضافاتی علاقے گوندلانوالہ منتقل کردیاگیا۔شہر سے وہاں جانا خود ایک مصیبت ہے۔پہلے اگر 1122کی ریسکیو وین 7منٹ کی اوسط تک تھی تو اب اسے شہر سے نئے ہسپتال جاتے ہوئے پون سے ایک گھنٹہ لگ سکتا ہے۔پنجاب کی موجودہ حکومت "عقلمندوں" سے بھری پڑی ہے اور ایسے ہی گوجرانوالہ افسر شاہی بھی۔کسی نہ بھی مشورہ نہ دیا کہ اگر گوندلانوالہ ہسپتال چلانا مقصود ہے تو شوق سے چلائیں ،اس سے بڑھ کرخوشی کی کیابات ہوگی کہ گوجرانوالہ میں ایک اورسرکاری ہسپتال کا اضافہ ہوگیا ہے۔مگر ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آسکی کہ موجودہ سول ہسپتال کو کیوں مکمل طورپر بند کردیا گیا جو شہر کے عین اندر اسی طرح موجود ہے جیسے لاہور میں میو ہسپتال اورگنگا رام ہسپتال وغیرہ۔کیا لاہور میں سروسز ہسپتال ،جنرل ہسپتال وغیرہ کے قیام کے بعد میو اورگنگا رام ہسپتال کو بند کردیا گیا تھا۔لاہور کو تو رہنے دیں ایک طرف ملک بھر کے کسی شہر کانام بتا دیں جہاں کسی نئے ہسپتال کے قیام کے بعد پرانے ہسپتال کو مکمل طورپر بند کردیا گیاہو۔اب سول ہسپتال گوجرانوالہ ترنوالہ بنے گا قبضہ مافیا ،سائیکل سٹینڈ اسکے اردگرد پھیلے پرائیویٹ ہسپتالوں ، پرائیویٹ ڈاکٹروں اورریڑھی بانوں کا۔ عین ممکن ہے یہاں کوئی لیگ والا چنگ چی رکشوں کا اڈا بھی بنالے۔ "عقلمندو"تمہیں گوندلانوالہ ہسپتال مبارک مگر سول ہسپتال کو جڑ سے کیوں اکھاڑ رہے ہو۔خدارالوگوں کی آواز سنو اوراسے دوبارہ فعال کرو۔لوگ بھی اب زیادہ سے زیادہ آواز ہی نکال سکتے ہیں۔احتجاج تو ان کی لغت سے ہمارے "تمام"حکمران نے حرف غلط کی طرح مٹانے میں مصروف ہیں۔اب سول ہسپتال منیر نیازی کا مصرع بن کررہ گیا ہے کہ۔ عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔۔
ہسپتال کی نقل مکانی کی کہانی یہاں تک لکھی تو ایک کال سننے کے لئے فون اٹھایا اور نادانستہ طورپر انگلی فیس بک پر لگی گئی اورسامنے راولپنڈی سے معروف دانشور اورشاعر پروفیسر مقصود جعفری صاحب کا دل چیر دینے والا پیغام تھاکہ ہمارے مشترکہ دوست پرویز الطاف اب اس دینا میں نہیں رہے۔ پرویز الطاف 70ء کی دہائی کے بڑے طالب علم راہنما تھے گارڈن کالج پنڈی کے حوالے سے ان کے کارناموں سے آگاہی ہوتی رہتی تھی۔سنا تھا کہ اردو اورانگریزی زبان پر انہیں یکساں عبور تھا اور یہ طے کرنا مشکل تھا کہ وہ اردو میں بہتر تقریر کرتے ہیں یا انگریزی میں۔گارڈن کالج سے جب وہ پنجاب یونیورسٹی پہنچے تو انہوں سننے کا موقعہ ملا۔ کیا روانی تھی ، کیا زویر بم تھا ، کیا چناؤ تھا الفاظ کا۔ اور دوران تقریر کیا تال میل تھا ان کا اپنے سامعین کے ساتھ،بیان سے باہر ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں ان کا ڈنکا بجنے لگا اور وہ طلباء یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ جاوید ہاشمی تب صدر منتخب ہوئے تھے۔
جاوید ہاشمی بھی اچھے مقرر تھے مگر جو بلکہ زبان وبیان اور لہجے و محاورے پرویز الطاف کو حاصل تھا وہ سننے والوں پر جادو کردیتا تھا۔اپنی تقریر میں شکسپئر اور اقبال کا وہ جابجا حوالہ دیتے۔ شیکسپیئر کا تو کوئی ڈرامائی منظر ان کی تقریر میں سنتا تو دیر تک سر دھنتا۔اردو زبان میں اقبال ان کے نوک زبان پر ہوتے۔میرا تعلق اگرچہ اسلامی جمعیتہ طلباء کے مخالف پلٹ فارم "لیفٹ اینڈ لبرل فرنٹ"سے تھا اورمیں لیاقت بلوچ کے مقابلے میں طلباء یونین کے لئے یونیورسٹی میں جنرل سیکرٹری کاامیدوار بھی تھا مگر پرویز الطاف کا گرویدہ تھا اوران سے بہت ملاقاتیں رہیں جو ذاتی دوستی میں تبدیل ہوگئیں۔
70ء کی دھائی سیاسی طور پر بہت بالغ نظر سیاستدانوں پرمشتمل تھی۔تب لاہور پیپلز پارٹی کا گڑھ شمار ہوتا تھا۔اسی اثناء میں لاہور شادباغ اور مصری شاہ وغیرہ کے علاتے پر مشتمل انتخابی حلقہ نمبر 6میں ایک ضمنی انتخاب آگیا۔پیپلز پارٹی نے اپنے ایک دیرینہ کارکن شیر محمدبھٹی کو انتخابی اکھاڑے میں اتاراتو اسکے مقابلے میں "شیر پنجاب"غلام مصطفے کھر خم ٹھونک کرمیدان میں آگئے اورذوالفقار علی بھٹو کوللکارا۔ایک روز جسٹس(ر) نذیر غازی ، گوجرانوالہ کے سابق ڈپٹی میئر میاں عارف مرحوم ،خواجہ فلاح اور ساہیوال کے متین چوہدری وغیرہ لاء کالج ہاسٹل میں میرے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہم سب نے فیصلہ کیا کہ پرویز الطاف کو اس حلقے سے امیدوار بنایا جائے۔ اگلے روز ہی ہم نے شاد باغ کے قریب جلسے کا اعلان کر دیا لوگوں نے آہستہ آہستہ ہماری طرف مائل ہونا شروع کر دیا اور ہمارے جلسوں میں سامعین کی تعداد روز بروز بڑھنا شروع ہو گئی۔ پرویز الطاف کے اردو خطابات اور میری پنجابی زبان میں تقاریر نے ہر جلسے میں ایسا سماں باندھا کہ ہم ’’قابل ذکر‘‘ہو گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ ہم نے اپنے سٹیج پر غلام مصطفیٰ کھر کو بھی تختہ مشق بنانا شروع کیا تو لوگوں نے ہمارے جلسوں میں بھر پور حاضری دینا شروع کر دی۔ مصطفیٰ کھر کے حلقہ احباب کے علاوہ جب یہ خبریں اسلام آباد تک بھی پہنچیں تو حکومتی گرگوں نے ہمارے ساتھ رابطہ بڑھانا شروع کردیا اور مصطفیٰ کھر کے خلاف مواد بھی مہیا کرتے مگر ہم وہی کرتے جو ہمارے ان دوستوں کا جی چاہتا جن کا ذکر قبل ازیں ہو چکا ہے۔ پرویز الطاف کا اعلیٰ کردار اس وقت ایک با ر پھر سامنے آیا جب چوہدری ظہور الہٰی نے انہیں اپنے گھر بلوا کر اپنا مدعا بیان کیا کہ مصطفیٰ کھر کے خلاف تقریر نہ کیا کریں۔ پرویز الطاف نے جواب دیا کہ ابھی میرے ان سب ساتھوں کو یہاں بلائیں۔ میں ان سے رائے لیتا ہوں۔ ہم میں سے جو میسر تھے وہ چوہدری ظہور الہٰی کے ہاں گلبرگ گئے اور دوٹوک انکار کر دیا۔ چوہدری صاحب کے ’’ سمجھانے بجھانے ‘‘کے باوجود ایک حر ف انکار ہی ان کے لیے رہا۔ اچھا پرویز الطا ف خدا حافظ۔ تم جتنا عرصہ جئے عزت ،غیرت اور خودداری سے جئے۔ تم نے ہماری طرح سمجھوتوں سے پاک زندگی بسر کی۔ رئیس زادے ہو کر بھی درویشی کو اپنا یا۔ اللہ تمہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین