• news

بھٹو ریفرنس : قصوروار کون ، عدلیہ، پراسیکیوشن یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر؟ چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستگی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے، اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کرسکتے، ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ رضا ربانی نے کہا  بختاور اور آصفہ بھٹو کا وکیل ہوں، کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے۔ عدالتی معاون صلاح الدین احمد نے کہا میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر سنجیدہ معاملہ ہے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا ذوالفقار بھٹو کے ورثاء کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہوسکتی، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے، ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا، ذوالفقار علی بھٹو کو 4 تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس کی ہدایت پر نسیم حسن شاہ کا ٹی وی انٹرویو کمرہ عدالت میں چلا دیا گیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے میں یہ تاثر نہیں دیا جاسکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی، دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا واحد نکتہ یہی ہے اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بنچ آزاد نہیں تھا؟۔ آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے، کیا ہم نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تحقیقات بھی کرانی ہیں؟۔ کیا ہم ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟۔ کیا ہم اس مرحلے پر انکوائری کریں یا صرف قانون کی حد تک رہیں؟۔ بھٹو کیس میں بہت سے ججز تھے تاہم انٹرویو ایک جج کا ہے، ہوسکتا ہے بینچ میں شامل دیگر جج صاحبان دبائو میں نہ ہوں، انٹرویو کی حیثیت جانچنے کیلئے انکوائری کی ضرورت ہوگی، ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کر نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے یا پھر پراسیکیوشن اور اس وقت کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے، دھبہ ایک خاندان پر نہیں لگا بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے۔ رضا ربانی نے عدالتی معاون خواجہ حارث پر اعتراض اٹھا دیا۔ خواجہ حارث نے عدالتی معاون بننے سے معذرت کرلی۔ عدالت نے کہا ریفرنس کی سماعت عام انتخابات کے بعد ہوگی۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کیسز سمیت دیگر مقدمات زیر التوا ہیں، مناسب ہے اس کیس کو عام انتخابات کے بعد سنیں۔ عدالت نے مزید سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

ای پیپر-دی نیشن