جسٹس مظاہر نقوی نے استعفیٰ دے دیا
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا سامنا کرنے والے جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کردیا۔ صدر مملکت کو ارسال کردہ خط میں انہوں نے کہا کہ پہلے لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر تعینات ہونا اور خدمات انجام دینا اعزاز کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی معلومات اور کسی حد تک عوامی ریکارڈ کا معاملہ ہونے کی وجہ سے ایسے حالات میں میرے لئے اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر خدمات جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اپنے استعفے میں انہوں نے لکھا کہ ’ڈیو پروسس‘ کی سوچ بھی اس فیصلے پر مجبور کرتی ہے، اس لیے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں۔ میرے لیے اب بطور جج فرائض سر انجام دینا ممکن نہیں ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کرایا۔ گذشتہ روز اپنے جمع کرائے گئے جواب میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے خود پر عائد الزامات کی تردید کر دی۔ جسٹس مظاہر نقوی کا جواب تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے، کونسل جج کے خلاف کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں۔ غلام محمود ڈوگر کیس میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا تھا۔ جواب میں جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا ہے، ایس ٹی جونز پارک والے گھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا۔ ان کا اپنے جواب میں کہنا ہے کہ گوجرانوالہ میں خریدا گیا پلاٹ جج بننے سے پہلے کا ہے اور اثاثوں میں ظاہر ہے۔ جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ زاہد رفیق نام کے شخص کو کوئی ریلیف دیا، نہ ہی ان کے بزنس سے کوئی تعلق ہے، میرے بیٹوں کو اگر زاہد رفیق نے پلاٹ دیا ہے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس فائز کیس میں طے شدہ اصول ہے کہ بچوں کے معاملے پر کونسل کارروائی نہیں کر سکتی۔ جواب میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان بار کی اکیس فروری کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی۔ شہباز شریف سے ملاقات کے روز ہی پاکستان بار کونسل نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ شوکاز کا جواب جمع کرانے سے پہلے ہی گواہان کو طلب کرنے کا حکم خلاف قانون ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کے استعفے پر غلط تاریخ درج ہونے پر ان کے سیکرٹری نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مراسلہ بھیج دیا۔ ان کے استعفے پر 2024 کی جگہ 10 جنوری 2023 لکھا تھا۔ تاہم اب اس معاملے پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے سیکرٹری نے صدر مملکت کو مراسلہ بھیجا۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفے پر غلطی سے تاریخ میں 2023 لکھاگیا، استعفے پر غیردانستہ طورپر 2024 کے بجائے 2023 لکھا گیا۔ تاریخ 2024 تصور کرتے ہوئے استعفیٰ منظور کیا جائے۔