نسخہ کیمیا
اہل دانش فرماتے ہیں کہ انسان کی اپنی اصلاح دراصل جہاد کی وہ قسم ہوتی ہے جو کسی دوسرے کے خلاف نہیں لڑا جاتا بلکہ یہ جنگ انسان کو خود اپنے خلاف لڑنا پڑتی ہے اور اسکا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنی خامیاں خود ڈھونڈنا اور پھر انکی تصحیح کرنا شروع کرتا ہے۔ اور یہی وہ ایک چیز ہے جو ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں ایسا نہیں ہوتا، وہاں ہر کوئی اپنی ذات کی بجائے دوسرے کی ذات کی خامیوں کو تلاش کرنے اور پھر اسے مثال بناکر سْدھار کی تجویز دینے میں لگا ہوا ہے جسکا آج یہ نتیجہ ہے کہ ہر انے والے دن ہم کسی سدھار کی بجائے مزید پستی کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔
پیشتر اسکے کہ یہ خاکسار اپنی بات کا آغاز کرے۔ قارئین جن دوستوں کے علم میں یہ بات نہیں انکی آگاہی کیلئے عرض کرتا چلوں کہ یہاں یورپی ممالک میں کوڑہ کرکٹ اکٹھا کرنے کیلئے دو قسم کے ڈسٹ بن استعمال ہوتے ہیں۔ ایک بن کا ڈھکن گرے رنگ کا ہوتا ہے جبکہ دوسرے بن کے ڈھکن کا رنگ اورنج ہوتا ہے۔ گرے ڈھکن والے بن میں آپ عام کوڑہ ڈالتے ہیں جبکہ اورنج ڈھکن والے بن میں آپ پلاسٹک، شیشہ، گتا وغیرہ والی اشیاء جو ری سائیکل recycle ہو سکتی ہیں، وہ ڈالتے ہیں۔
قارئین ابھی کل کی بات ہے لندن جنوری کے اس یخ بستہ مہینے میں جہاں اس وقت سردی جو اپنے جوبن پر ہے اور درجہ حرارت منفی ڈگری کی حدوں کو چھو رہا ہے وہاں صبح ناشتہ میں گرم پراٹھے اور کشمیری چائے سے لطف اندوز ہونے کے بعد اس خاکسار نے اپنی سستی، کاہلی یا تساہل آپ اسے جو بھی نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں، کی بدولت سردی سے بچنے کیلئے دودھ کی خالی پلاسٹک کی بوتل اور کچھ دوسرے پلاسٹک ریپ جو اصولا مجھے اورنج ڈھکن والے بن میں ڈالنے چاہئیں تھے، گرے ڈھکن والے اس بن میں ڈال دیے جو کچن کے اندر رکھا ہوا تھا کیونکہ اورنج ڈھکن والا بن باہر یارڈ میں پڑا ہوا تھا۔
اب ملاحظہ فرمائیے اگلا سین پارٹ اور میرے اس عمل کی وجہ سے وہ خفت جو اس دن مجھے، میرے نواسے اور نواسی عمر کے لحاظ سے جنکا شمار ابھی ٹین ایجر میں ہوتا ہے اور جنکے ابھی کھیلنے کودنے کے دن ہیں، کے ہاتھوں اْٹھا نا پڑی۔ میری اس حرکت پر انکی طرف سے جو سب سے پہلا سوال آیا وہ کچھ یوں تھا کہ ‘‘لالہ آپکو پتہ ہے یہ پچھلے کچھ سالوں سے دنیا میں سیلابوں طوفانوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ میری نواسی زویا خان بولی شائد ہم میں سے بہت کم لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ ان تمام موسمی تغیرات کی سب سے بڑی وجہ وہ گلوبل وارمنگ ہے جسکی طرف ہم کوئی توجہ ہی نہیں دے رہے۔ اپنی بہن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے زاویار خان جو اپنی بہن سے دو سال چھوٹا ہے کہنے لگا کہ دراصل اس گلوبل وارمنگ کا اصل محرک زمین کا بڑھتا ہوا وہ درجہ حرارت ہے جس میں ہر سال ایک سے دو پوائنٹ کا اضافہ ہو رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ خواب خرگوش سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ جن سہولتوں کے حصول کی خاطر ہم ایندھن کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں دراصل وہ عمل کسی طور بھی خود کشی سے کم نہیں۔ زاویار صاحب نے ابھی دم نہیں لیا تھا کہ زویا بولی کہ ہمارے معاشرہ کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ ہم میں سے اکثریت کو یہ بھی علم نہیں کہ یہ گرین گیسز کس بلا کا نام ہے۔ یہ کس طرح پیدا ہوتی ہیں، انکے ماحول پر کتنے بھیانک اثرات ہیں اور انکے سدباب کیلئے ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ زاویار خان مجھ سے مخاطب ہوتے بولا لالہ حد ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ جس ملک پاکستان میں آپ رہتے ہیں وہاں کا ائیر انڈکس کیا ہے۔ اپنے ہی سوال کا جواب دیتے بولا غالباً یہ ہر روز چار سو کے اوپر نیچے کی حدوں کو چھوتا ہے۔ اسکے بعد خود ہی بولا کہ یہاں روز لندن کا ائیر انڈکس چیک کرو جو کسی صورت تین پوائنٹس سے تجاوز نہیں کرتا۔ کہنے لگا یہ وہی لندن ہے جو جنگ عظیم دوئم کے بعد انڈسٹریلائزیشن کے باعث اٹھتے دھویں کی وجہ سے آلودہ ترین شہر گنا جاتا تھا اور آج دیکھ لیں کہ آپکا شہر لاہور جو باغوں کا شہر گنا جاتا تھا وہ کس جگہ کھڑا ہے اور یہ شہر لندن جہاں ہم رہ رہے ہیں وہ کس جگہ کھڑا ہے۔ زویا نے پھبتی کسی، لالہ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم سردی کی پرواہ کیئے بغیر ری سائیکل ویسٹ ری سائیکل بن میں ڈالتے ہیں اور تلف ہونے والا کوڑہ گرے ڈھکن والے بن میں ڈالتے ہیں کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ایک طرف ایک منٹ کی یہ تکلیف آپکو اور آپکی آنے والی نسل کی صدیوں کو محفوظ بنا سکتی ہے تو دوسری طرف ری سائیکل اشیاء کو دوبارہ استعمال میں لا کر آپ اپنے دستیاب وسائل میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ دونوں بہن بھائیوں کی بیک وقت ایک آواز تھی کہ بالا شبہ آپکو یہ شعور اکیڈمک کوالیفیکیشن نہیں بلکہ سوشل ایجوکیشن دیتی ہے۔
قارئین! ان بچوں کی یہ باتیں سْن کر جہاں یہ بات مجھے پانی پانی کر رہی تھی کہ میں ماسٹر ان ایڈمنسٹریٹو سائنس ہوکر ان آٹھویں اور دسویں میں پڑھتے بچوں کے سامنے کتنا پست قد محسوس کر رہا ہوں وہاں ایک بات مجھے اور بھی زچ کر رہی تھی کہ اپنے پورے مکالمے میں ان دو بچوں نے براہ راست میری ذات پر حملہ کیئے یا اسے تنقید کی زد میں لائے بغیر یہ بات کہ سماجی شعور کیلئے کتابی علم کی بجائے سوشل ایجوکیشن کس اہمیت کی حامل ہے، کس خوبصورتی کے ساتھ کہہ دی ہے اور بلاشبہ اپنی اس کم مائیگی پر مجھے بابا بلھے شاہ کا یہ کلام یاد آ گیا کہ
پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں__ اپنا آپ نہ پڑھیا
جا جا وڑ دا مندر مسجد __ من اپنے وچ نئیں وڑیا۔
لڑ دے ریہو نال شیطان__ پر نفس اپنے نئیں لڑیا
پہلے اپنے آپ نو پڑھ__ فئیر مندر مسجد وڑ
جدوں نفس جاوے تیرا مر__ فئیر نال شیطاناں لڑ
بیشک اے انسان اگر اصلاح چاہتے ہو تو پھر اس نسخہ کیمیا پر عمل بھی کرو۔