پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کو سلیوٹ
آج کا ’’ولایت نامہ‘‘ اپنی پولیس کے ایک ایسے باوقار‘ فرض شناس اور نیک نام اعلیٰ افسر کے نام کرنے جا رہا ہوں جن کے حالیہ غیرمعمولی اور تاریخی کارنامے نے مجھے اور میرے گورے کولیگز کو ہی متاثر نہیں کیا‘ برطانیہ میں بسنے والے گیارہ لاکھ پاکستانیوں کے سر بھی فخر سے بلند کر دیئے ہیں۔ میری سوچ کے مطابق اس افسر نے جنت میں اپنا گھر تعمیر کرلیا ہے۔ آپ یقیناً سوچیں گے کہ ہماری پولیس کا آخر یہ کونسا ایسا غیرمعمولی افسر ہے جس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے میں تھک نہیں رہا۔
یہ اعلیٰ افسر سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر مسٹر شفیع اللہ گنڈاپور ہیں‘ جنہیں وطن سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور ہوتے ہوئے سلیوٹ کرنے پر مجبور ہوں۔ اس افسر نے آخر کیا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟ بتانے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ مسٹر شفیع سے میری ذاتی یاداللہ اور دوستانہ تعلقات ہیں اور نہ ہی کسی دوست کے حوالہ سے جان پہچان۔ تاہم انکی انسان دوستی سے متاثر ہو کر ان کا ذکر کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ ورنہ خدا شاہد ہے کہ اپنی ’’پلس‘‘ کے تالابوں میں پائی جانیوالی بڑی بڑی گندی مچھلیوں پر لکھنا مجھ ایسے کمزور اور اپنی حیثیت سے واقف ’’ماڑے کالم نگار‘‘ کے بس کا قلمی روگ نہیں۔ متعدد بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ’’اللہ والوں‘‘ کی ایک بڑی تعداد آج بھی ہماری پولیس میں موجود ہے۔ ’’ہماری پولیس‘‘ جب کہتا ہوں تو اس کا مطلب پنجاب‘ بلوچستان‘ سندھ‘ گلگت بلتستان‘ کے پی کے اور آزاد کشمیر کی فورسز ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں دہشت گردوں کی سرکوبی جر رہی ہیں اور عوام کی حفاظت کو اپنے ایمان کا حصہ قرار دیئے ہوئے ہیں جن پر اہل پاکستان کو فخر ہے۔ ایسے چند اللہ والوں کا ذکر آگے چل کر!
سب سے پہلے سوات کے ڈی پی او مسٹر شفیع کا وہ تاریخی کارنامہ جو انہوں نے انجام دیا ہے۔ ہوا یوں کہ اگلے روز اس افسر نے اپنے تمام اہلکاروں‘ جونیئر اور سینئر افسران کو یہ حکم جاری کرتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ ضلع بھر کے تمام معزز اساتذہ کرام کی عزت و وقار اور انکے احترام کو مزید بلند کرنے اور یقینی بنانے کیلئے پولیس فورس کا ہر جوان اور افسرآئندہ اساتذہ کرام کو دیکھتے ہوئے اور ان سے ملاقات سے قبل انہیں ’’سلیوٹ‘‘ مار کر انکی تعظیم میں مزید اضافہ کریگا۔ مسٹر شفیع نے اپنے اس تاریخی حکم کی مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ فوری اقدام اساتذہ کرام کے اعلیٰ مقام میں مزید اضافہ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا جا رہا ہے کہ جہاں مہذب معاشروں کی ترقی کا راز اساتذہ کرام کے کردار میں پنہاں ہے‘ وہیں اسلامی فکر و نظر میں بھی استاد کو باپ کا درجہ دیا گیا ہے جو ہماری نئی نسل کیلئے مشعل راہ ہے۔
اب جس روز سے یہ تاریخی خبر پڑھی ہے‘ مسٹر شفیع کیلئے دل سے دعائیں اس لئے بھی نکل رہی ہیں کہ سوات میں معزز اساتذہ کی عزت و احترام کیلئے جس عملی کام کا آغاز اس ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے کیا ہے‘ افسوس، پنجاب پولیس تاہنوز نہیں کرپائی۔ میرے ذرائع کے مطابق پنجاب کے موجودہ انسپکٹر جنرل ڈاکٹر عثمان انور ایک انتہائی محنتی‘ فرض شناس اور بااصول اعلیٰ افسر ہیں جنہوں نے پولیس ملازمین کی فلاح و بہبود‘ انکی محکمانہ ترقیوں‘ تھانوں کی تزئین و آرائش اور تھانہ کلچر کے فوری خاتمہ کیلئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ لفظوں کو زبان دینے کے گر سے بھی وہ خوب آشنا ہیں مگر! صوبے کے اساتذہ کرام کی فلاح و بہبود اور سوسائٹی میں انکی خدمات اور انکی عزت و تکریم کو آنر کرنے کیلئے پولیس جوانوں اور افسروں کی جانب ے کوئی ایسا پروٹوکول سامنے نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہو کہ قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنیوالے ان اساتذہ کو تھانوں یا چوکیوں میں پولیس کی جانب سے عزت و احترام دیا جاتا ہے؟
سابق آئی جی پنجاب حاجی محمد حبیب الرحمن‘ آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل مرحوم جاوید نور اور سندھ کے سابق آئی جی قمر عالم سے میری طویل عرصے سے یاداللہ ہے۔ حاجی صاحب سے تو آج بھی وقتاً فوقتاً پولیس چھیڑچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے تاہم ماضی میں مذکورہ بالا افسران ’’پولیس اصلاحات‘‘ پر لکھے میرے کالم جب بھی پڑھتے‘ میری جانب سے کی گئی مثبت تنقید پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ایکشن کی امید دلوا دیتے۔ پولیس پر عوام کے اعتماد کی بحالی اور سٹاف ڈسپلن سمیت تھانہ کلچر کے خاتمہ کیلئے حاجی حبیب صاحب اور جاوید نور مرحوم نے بے حد کوششیں کیں مگر افسوس! اپنی بھرپور محنت کے باوجود وہ خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ پولیس اہلکاروں اور افسروں کی سائز سے بڑی توندوں کو اصل مقام پر لانے اور سائل سے تھانوں میں غیرمہذبانہ گفتگو کو مانیٹرنگ کرنے کی میری تجاویز پر بھی ان افرض شناس افسروں نے اپنے تجربہ کی روشنی میں بھرپور کوششیں کیں مگر افسوس! حاجی صاحب ریٹائر جبکہ جاوید نور اپنے خالف حقیقی سے جا ملے۔ اسے بھی اب حسن اتفاق کہہ لیں کہ حاجی صاحب اور جاوید نور مرحوم دونوں نے بطور استاد بھی خدمات سرانجام دیں۔ انتہائی دکھ سے یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ جو قومیں استاد کی اہمیت اور ان کا عزت و احترام بھلا دیتی ہیں‘ ذلالت اور رسوائی ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ تصور کرلیں کہ اساتذہ کرام جو والدین کا درجہ رکھتے ہیں‘ انکی عزت و احترام محض سکول‘ کالج اور یونیورسٹی طلباء کا ہی فرض نہیں‘ ان کا احترام اور انکی خدمات کا اعتراف ہر محکمے اور ادارے کی بنیادی ڈیوٹی ہے۔ کاش! یہ الفاظ نصاب میں بھی لکھے جا سکتے۔