جماعت اسلامی کا نعرہ حق دو کراچی کو!!!!!
کراچی الیکٹرک کی تنظیم نو کی جائے گی اور اسے عوام کا استحصال کرنے اور بجلی کی قیمت میں ناروا اضافے سے روکا جائے گا۔ کراچی کو درپیش ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے جدید بسیں چلائی جائیں گی۔بلدیہ کراچی کو مالی طور پر خودمختار ادارہ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور انتظامی اصلاحات کی جائیں گی۔ فراہمی آب منصوبے (کے 4) کی تکمیل یقینی بنائی جائے گی۔ کراچی کے نکاسی آب کے منصوبے کی فوری تکمیل کی جائے گی۔ کراچی کے نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر روزگار کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔کراچی کو پاکستان کا صاف ستھرا مثالی شہر بنایا جائے گا۔ جماعت اسلامی کی ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ اور حکومت سندھ کے مابین معاہدے پر عمل درآمد کروایا جائے گا۔
خوشحال پنجاب
صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کے ذریعے پنجاب کے تمام اضلاع کو وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے گی۔ پنجاب کے بڑے شہروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نئے شہر آباد کئے جائیں گے۔ آبادی کا شہروں کی طرف بہاؤ روکنے کے لیے ’’جامع دیہی ترقی کا منصوبہ‘‘ تیار کیا جائے گا جس کے تحت دیہاتوں میں تمام شہری سہولیات مہیا کی جائیں گی۔پنجاب رئیل سٹیٹ ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ زراعت کو صوبے کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بنایا جائے گا۔ زرعی ترقی کے لیے سستی بجلی، سستے زرعی مداخل اور جدید مشینری فراہم کی جائے گی۔ پنجاب کی زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے پر پابندی لگائی جائے گی۔ خودکفالت کے لیے موسم اور زمین کی ساخت کے مطابق زرعی زونز قائم کیے جائیں گے۔ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے گا اور لینڈ ریفارم پر دوبارہ کام شروع کیا جائے گا۔ کسانوں کو پیداوار اور آمدن میں حصہ دار بنایا جائے گا۔ کالا باغ، کوہستان، نمک، اٹک، چنیوٹ اور ڈیرہ غازی ان کے علاقوں میں معدنیات کی صنعتوں کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ چکوال اور دیگر موزوں علاقوں میں زیتون کی وسیع پیمانے پر کاشت کے لیے کسانوں کی رہنمائی اور معاونت کی جائے گی۔ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ سمیت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز کی سطح تک صفائی کے بہتر انتظامات کے لیے ’’ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی‘‘ قائم کی جائے گی۔ صوبہ بہاولپور بحال کیا جائے گا۔ چولستان کو خشک سالی سے بچانے کے لیے کسانوں کو ’’خصوصی خوشحال پیکج‘‘ دیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے گا اور انتظامی بنیاد پر الگ صوبہ بنایا جائے گا۔
خوشحال آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان
ریاست جموں و کشمیر کی آزادی ہمارا قومی نصب العین ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی طور پر باہم مربوط کر کے ریاست کے دونوں خطوں کو تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ بنایا جائے گا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو تمام دینی ، فلاحی، رفاہی، معاشی اور معاشرتی فوائد پہنچائے جائیں گے۔ گلگت بلتستان کو آزاد جموں و کشمیر کی طرز کا علیحدہ سیٹ اپ دلوایا جائے گا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائیلٹی ادا کی جائے گی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پینے کے صاف پانی اور سیوریج کا مربوط نظام قائم کیا جائے گا۔ سیاحتی مقامات سے مالا مال خطے کو عالمی سیاحت کا مرکز بنانے اور عوام کو روزگار کی فراہمی کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر بالخصوص سڑکوں، سرنگوں، ہیلی کاپٹر سروس، ہیلی پیڈز اور ایئر پورٹس کی تعمیر اور انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کی جائے گی۔ خطے کے عوام کو شاہراہِ ریشم سے تجارتی فوائد پہنچانے کے لیے جامع اقدامات کیے جائیں گے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات میں توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے تاجکستان، افغانستان، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ پاکستانی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے طلبہ و طالبات کا کوٹہ بڑھایا جائے گا، نیز گلگت بلتستان میں عالمی معیار کی انجینئرنگ اور میڈیکل یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سکلز ڈیویلپمنٹ پروگرامز شروع کیے جائیں گے۔
خوشحال اسلام آباد
اسلام آباد کو سہولیات کے لحاظ سے دنیا کا بہترین دارالحکومت بنائیں گے۔ اسلام آباد کو ڈیجیٹلائز کر کے تمام تر شہری سہولیات کو ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے گا۔ دارالحکومت میں مقامی بجلی کی پیداوار سے رہائشی علاقوں میں اَزراں نرخوں پر بجلی کی فراہمی کے لئے اقدامات کیے جائیں گے۔ برساتی نالوں کی صفائی اور مقامی سطح پر چھوٹے ڈیم قائم کر کے پانی اور بجلی کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان ٹریفک کی روانی اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے اربن اور رورل ٹرانسپورٹ سسٹم متعارف کروایا جائے گا۔
خوشحال معاشرہ
خوشحال اور محفوظ عورت
خواتین کو میٹرک تک لازمی مفت تعلیم دی جائے گی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کو مساویانہ مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ خاندانی نظام کے استحکام اور تحفظ کے لیے فیملی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے گا۔ اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو والد اور شوہر کی جائیداد سے وراثت اور ملکیت کے حقوق دلوانے کے لیے فوری اور عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ ماؤں اور بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے والے اْمیدواروں کے انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کی جائے گی۔ غیر اسلامی معاشرتی رسموں جہیز کے ناجائز مطالبات قرآن سے شادی، ونی، وٹہ سٹہ، سورہ، کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کا سدِباب کیا جائے گا۔ ایک وقت میں طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ برسرروزگار خواتین کو محفوظ پیشہ ورانہ ماحول کی فراہمی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔ سرکاری و نیم سرکاری محکموں میں بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کو ملازمت کے لیے عمر کی حد میں خصوصی رعایت دی جائے گی۔ سرکاری و غیر سرکاری ملازم پیشہ خواتین کو پوری تنخواہ کیساتھ چار ماہ کی زچگی رخصت دی جائے گی جبکہ بچے کی پرورش کے لیے آدھی تنخواہ پر رخصت دی جائے گی۔ خواتین سرکاری ملازمین کو اْن کے شوہر کی جائے ملازمت پر تعیناتی کی پالیسی پر عمل کیا جائے گا اور گھر کے قریب تعینات کیا جائے گا۔ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے لچکدار اوقاتِ کار مقرر کیے جائیں گے۔ پبلک سروس کے تمام اداروں میں خواتین کے لیے علیحدہ ڈیسک قائم کیے جائیں گے۔ خواتین کے لیے خصوصی ٹرانسپورٹ شروع کی جائے گی۔ گھریلو صنعتوں کے فروغ کی حوصلہ افزائی کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ خواتین کو ہنرمند بنا کر معاشی طور پر مضبوط بنانے میں مدد کی جائے گی۔
محفوظ خوشحال بچے
ہر بچے کو اسلامی عقائد، عبادات، اخلاقیات اور رواداری کی تعلیم دی جائے گی۔تعلیمی اداروں میں ہر مسلمان بچے/ بچی کے لیے ناظرہ و ترجمہ قرآن مجید سیکھنا لازمی ہو گا۔ہر بچے کی خوراک، لباس ، چھت، صحت، تعلیم اور تحفظ کا بندوبست ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے 2 کروڑ سے زائد بچوں اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کروا کر زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔ فرقہ واریت ، نسل پرستی، لسانیت اور طبقاتی تقسیم سے پاک معاشرے کی تعمیر کے متعلق بچوں کو آگاہی دی جائے گی۔ دینی مدارس میں زیر تعلیم بچوں کو جدید ٹیکنالوجی اور عصری علوم سے روشناس کروایا جائے گا۔ بچوں کے لیے کھیل کود کے مواقع پیدا کرنے کے لیے چلڈرن پارکس بنائے جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فراہمی کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی اور اس سے بچوں کو آگاہ کیا جائے گا۔ بچیوں اور بچوں کو انصاف کی فوری فراہمی کے لیے خصوصی عدالتیں (Juvenile Courts) قائم کی جائیں گی۔ بچوں کے معاشی، تعلیمی اور سماجی استحصال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چائلڈ لیبر خصوصاً بچوں سے جبری مشقت لینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ بچوں کو اغوا کر کے پیشہ ور گداگری پر مجبور کرنے والے مافیاز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ بچوں کو منشیات کی لت میں مبتلا کرنے والے عناصر کا قلع قمع کیا جائے گا۔ بچوں پر جسمانی و جنسی تشدد کے سدِباب کے لیے موثر عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ بچوں اور بچیوں کے جنسی استحصال سے تحفظ کے لیے پولیس ’’فوری ریسپانس یونٹ‘‘ قائم کیا جائے گا۔ بچیوں اور بچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے مجرموں کو سرعام سزائے موت دینے کے لیے قانون سازی اور اس پر فوری عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔ مختلف جرائم میں گرفتار بچوں کو کارآمد شہری بنانے کے لیے باقاعدہ تربیتی نظام تشکیل دیا جائے گا۔ بچوں کی صحت، تعلیم اور تربیت کا شعور پیدا کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔
خوشحال نوجوان، کھیلوں کا فروغ اور فنون لطیفہ
طلبہ یونینز پر پابندی ختم کر کے تمام تعلیمی اداروں میں انتخابات کروائے جائیں گے۔ ہر ضلع میں یوتھ اسمبلیاں قائم کی جائیں گی تاکہ مستقبل کی قیادت تیار ہو سکے۔ یوتھ بنک قائم کیا جائے گا۔ نوجوانوں کو کاروبار کے لیے بلاسود قرضے اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جائے گی۔ نوجوانوں کی سیاسی، معاشی اور نفسیاتی کونسلنگ کے لیے ’’کیریئر کونسلنگ سنٹرز‘‘، ’’سکولز آف پالیٹکس‘‘، ’’ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز‘‘، ’’یوتھ کلچر سنٹر‘‘، ’’یوتھ شاپنگ سنٹر‘‘، ’’یوتھ اکنامک زونز‘‘، ’’یوتھ گرین زونز‘‘، ’’فری لانسنگ‘‘ اور ’’آن لائن فورمز‘‘ قائم کیے جائیں گے۔ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں نوجوانوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ شادی آسان پروگرام شروع کیا جائے گا جس کے تحت مستحق نوجوان بچوں اور بچیوں کی شادی کے لیے پیکج دیا جائے گا۔ وفاقی و صوبائی بجٹ میں ہر شہر اور دیہات میں کھیلوں کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں گے۔ کھیل کے میدانوں میں اضافہ اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ کرکٹ، ہاکی ، سکوائش، فٹ بال، ویٹ لفٹنگ، جماسٹک ، ٹینس، باسکٹ بال، کبڈی، فن پہلوانی اور دیگر کھیلوں کے فروغ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں اِن ڈور کھیلوں کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ قومی ٹیموں میں کھلاڑیوں کی سلیکشن میں میرٹ پر سختی سے عمل ہو گا اور سفارشی کلچر کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے دائرے میں نوجوان خواتین کے لیے کھیلوں کے الگ میدان اور صحت مند تفریحی سرگرمیوں کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں گے۔ کھلاڑیوں کی جدید طرز پر پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کی جائے گی۔ اسلامی فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے شاعروں، ادیبوں اور خطاطوں وغیرہ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور ان کے علاج و معالجہ کا خیال رکھا جائے گا۔
خوشحال سمندر پار پاکستانی
سمندر پار پاکستانیوں کے تمام حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی پاکستان میں موجود جائیدادوں اور اثاثوں کے تحفظ کے لیے ’’پروٹیکشن آف اوورسیز پاکستانیز پراپرٹی اتھارٹی‘‘ قائم کی جائے گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ پاسپورٹ، شناختی کارڈز اور دیگر تصدیقی دستاویزات کی تجدید کے لیے آن لائن سہولت کا نظام موثر بنایا جائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے پاکستان آمد پر امیگریشن اور کسٹم وغیرہ میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔ ترسیلاتِ زر پر بنک فیس کم کی جائے گی۔ زیادہ زرمبادلہ بھیجنے والے سمندر پار پاکستانیوں کو ہر سال قومی اعزاز ’’محسن پاکستان‘‘ سے نوازا جائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب، مراعات کی فراہمی اور کاروباری رہنمائی دی جائے گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کے بیرون ملک تحفظ اور قانونی معاملات میں معاونت کے لیے پاکستان قونصلر سروسز کو مستعد، متحرک اور دوستانہ بنایا جائے گا۔
خوشحال پاکستان، زرعی و دیہی ترقی
اسلام کے اصولوں کے مطابق زرعی اصلاحات کی جائیں گی۔ کسانوں کو بجلی، پانی، ڈیزل، کھاد، بیج اور زرعی ادویات سستے داموں فراہم کی جائیں گی۔ بے زمین کسانوں اور ہاریوں کو غیر آباد سرکاری زمینیں پانی کی سہولت اور آبادکاری کی شرط کے ساتھ فراہم کی جائیں گی۔ کاشت کار کو کھاد، بیج اور ادویات خریدنے کے لیے بلاسود قرضے دئیے جائیں گے۔ زرعی قرضوں پر سْود ختم کیا جائے گا۔ پھل اور سبزیوں کی جدید فارمنگ کو ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔ مقامی صنعتوں کو زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے ٹیکس چھوٹ دی جائے گی۔ پھل اور سبزیوں کو کولڈ سٹوریج سہولت پر بلاسْود قرضے دئیے جائیں گے۔ زرعی زمینوں کا سروے کروا کر موسم اور زمین کی ساخت کے مطابق زرعی فصلوں کے زون بنائے جائیں گے تاکہ خودکفالت حاصل ہو۔ زرعی گریجویٹس کو آسان شرائط کے ساتھ لیز پر زرعی رقبہ دیا جائے گا۔ باغات اور زرعی زمینوں پر نئی رہائشی سوسائٹیوں اور کارخانوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے گی۔ آڑھتیوں کو کم کر کے کسان کو محنت کا بدلہ اور عوام کو سستے داموں زرعی اجناس، پھلوں اور سبزیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ کوآپریٹو سوسائٹیوں کی تشکیلِ نو کی جائے گی تاکہ زرعی انقلاب کا قومی مقصد حاصل ہو سکے۔ زرعی تحقیقات کی بنیاد پر بیج، کھاد، ادویات اور زمین کی زرخیزی میں اضافے کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز اور سہولیات دی جائیں گی۔ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ ٹیوب ویلوں کو ایٹمی اور شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے کسانوں کو سولر پینل فراہم کیے جائیں گے۔ ڈرپ اور سپرنکل اری گیشن کے لیے ضروری سامان کی مقامی سطح پر تیاری کی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ صوبوں کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے فارمولے اور ٹیلی میٹری سسٹم پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے محرومیوں اور غلط پروپیگنڈے کا خاتمہ کیا جائے گا۔ قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی سمیت قومی و صوبائی مشاورتی کمیٹیوں، اداروں، محکموں اور کمپنیوں میں کسانوں کو حقیقی نمائندگی دی جائے گی۔ زرعی اجناس کی درآمد کا خاتمہ اور زرعی شعبے کو مکمل طور پر برآمدی شعبے میں تبدیل کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے گی۔ بڑی فصلوں خصوصاً، کپاس، گندم، چاول اور گنے کی کاشت میں اضافے اور ان سے برآمدی مصنوعات بنانے کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے گی۔ سیم و تھور کے خاتمے کے لیے سکارپ ٹیوب ویلز بحال کیے جائیں گے۔ کھاد کی بوریوں پر قیمتیں چھاپی جائیں گی تاکہ کسانوں سے زیادہ قیمت وصول نہ ہو سکے۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے قومی پالیسی بنائی جائے گی۔ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیوب ویل لگائے جائیں گے۔ نہروں پر بجلی کے ہائیڈل یونٹ لگا کر بجلی قریبی علاقوں کو فراہم کی جائے گی۔ بہترین پیداوار کے لیے ہائی ٹیک اور میکانکی زراعت کو فروغ دیا جائے گا۔ ملک کی غذائی ضرورت پورا کرنے کے لیے تمام زرعی اجناس میں خودکفالت حاصل کی جائے گی۔ لائیو سٹاک کو صنعت کا درجہ دیا جائے گا۔ مویشی اور بھیڑ بکریاں پالنے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں گی اور گوشت کی برآمد میں اضافے کے لیے سپلائی لائن کی اصلاح کی جائے گی۔ ڈیری فارمنگ کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ بائیو گیس کے قابل عمل منصوبے بنائے جائیں گے۔ اعلیٰ نسل کی دیسی اور غیر ملکی گائے بھینسوں کی افزائش کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔