• news

پی ٹی آئی نے لیول پلیئنگ کیلئے درخواست واپس لے لی: فیصلہ ماننا ہے تو مانیں نہیں تسلیم توآپ کی مرضی، چیف جسٹس

اسلام آباد؍ پشاور (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) تحریک انصاف نے لیول پلیئنگ فیلڈ نا ملنے سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی۔ درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ لطیف کھوسہ نے  موقف اختیار کیا کہ جمہوریت کی بقا کیلئے عوام کی عدالت میں جانا پسند کریں گے، ہم 25 کروڑ عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟۔ سردار لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ  آپ کی بہت مہربانی بہت شکریہ، مجھے ہدایات ملی ہیں کہ درخواست واپس لے لی جائے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ نے ہمارا فیصلہ ماننا ہے تو مانیں، نہیں ماننا تو آپ کی مرضی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم آپ کے پاس صاف شفاف الیکشن کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ لینے آئے تھے، آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، تحریک انصاف کا شیرازہ ہی بکھیر دیا گیا ہے، ایک جماعت کو پارلیمان سے باہر کر کے پابندی لگائی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گے اور کنفیوژن کا شکار ہوں گے، کسی کو گلاس، کسی کو ڈونگہ، کسی کو بینگن کا نشان دے دیا گیا، ہمارا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں؟۔ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کیلئے خون دیا، قربانیاں دیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اب آپ ہمیں بھی بولنے کی اجازت دیں، دوسرے کیس کی بات اس کیس میں کرنا مناسب نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ عدالت کے فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہا تھا کہ دکھا دیں انٹراپارٹی انتخابات کا ہونا دکھا دیں، آپ کو فیصلہ پسند نہیں تو کچھ نہیں کر سکتے، لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا، عدالت حکم دے سکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی،  بیرسٹر گوہر کے معاملے پر پولیس اہلکار معطل ہوگئے، ہمارا کام انتخابات قانون کے مطابق کرانا ہے۔ الیکشن کا معاملہ ہم نے اٹھایا، پی ٹی آئی کی درخواست پر بارہ دن میں تاریخ مقرر کی، الیکشن کمیشن کہتا رہا پارٹی انتخابات کرائیں لیکن نہیں کرائے گئے، کسی اور سیاسی جماعت پر اعتراض ہے تو درخواست لے آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون ہم نہیں بناتے، قانون پر عمل کراتے ہیں، آپ کو قانون نہیں پسند تو بدل دیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان واپس دیا، تحریک انصاف کو کیوں نہیں؟۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کل پتہ چلا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے آئین کے مطابق ابھی وقت موجود تھا، اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے عوامی نیشنل پارٹی کو نشان واپس لوٹایا، لطیف کھوسہ صاحب یہ درست طریقہ کار نہیں ہے، آپ سینئر وکیل ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھا لیا گیا اور پریس کانفرنس کروائی گئی، اتحاد کرنے پر بھی اب ہم پر مقدمات بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، آپ کے فیصلے سے ہمیں پارلیمانی سیاست سے نکال دیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ آپ بتا رہے تھے کہ آپ نے کسی جماعت سے اتحاد کیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں وہی تو بتا رہا ہوں کہ ہمیں اتحاد بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ جسٹس مسرت نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن فئیر نہیں ہے؟، کیا الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اسے دوسری سیاسی جماعتیں نظر نہیں آتیں؟۔ بعدازاں، سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ میں الیکشن  کمشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لے لی۔ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کئے جانے پر الیکشن کمشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

ای پیپر-دی نیشن