بڑے میاں صاحب بلاول بھٹو اور کراچی جرائم پیشہ عناصر کے نشانے پر!!!!
بعض حلقوں میں یہ سیاسی بحث ضرور ہوتی ہے کہ شاید سیاسی و حکومت کرنے والے خاندانوں میں جب موروثیت کو فروغ مل رہا ہے تو ہو سکتا ہے نئے آنے والے اپنے بڑوں سے بہتر ثابت ہوں اور وہ بہتر انداز میں ملک کو چلائیں قوم کی قیادت کریں، ترقی کا سفر شروع کر سکیں، بڑوں کی غلطیوں کو نہ دہرائیں، قوم کی رہنمائی کریں، جن الزامات کا سامنا ان کے بڑوں کو رہا ہے اس سے بچ سکیں، جو کام بڑے نہیں کر سکے وہ یہ کر گذریں، جو طرز سیاست والدین کا رہا ہے بچے اس سے مختلف ہوں۔ یہ ایک سوچ ہے اور بعض حلقے اس پر قائل بھی ہیں لوگ ایسا سمجھتے بھی ہیں، ہم یہ سوچ تو سکتے ہیں یا یہ خواہش کر سکتے ہیں کہ کاش ایسا ہو لیکن کیا ہم یہ خواہش کرتے ہوئے حقائق نظر انداز کر سکتے ہیں، جب ہم ایسا سوچتے ہیں تو کیا ہم حالات و واقعات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہیں، کیا ہم تعصب سے نکل کر حقائق پر نظر دوڑاتے ہیں۔ یقینا بہت سے لوگ اس سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت کے نام پر موروثیت کی طرف بڑھتے ہوئے ہم غیر ضروری طور بعض لوگوں سے امیدیں لگاتے ہیں اور جب جب کوئی توقعات پر پورا نہیں اترتا، ہمارے خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو پھر ہم بیچین ہوتے ہیں، دلبرداشتہ ہوتے ہیں، ناامید ہوتے ہیں اور سب کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اگر ہم غیر ضروری توقعات سے گریز کریں، حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی رائے قائم کریں، یا کسی کی بھی حمایت یا مخالفت سے پہلے حالات و واقعات کا جائزہ لیں، مشاہدہ کریں تو ہمیں اتنی تکلیف نہ ہو۔
یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ ان دنوں بڑی سیاسی جماعتوں کی نئی قیادت سامنے ہے ایک طرف بلاول بھٹو زرداری ہیں تو دوسری طرف مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں اور خاندانوں میں بھی یہی رجحان ہے۔ اگر آپ مجموعی طور پر دیکھیں تو مجھے کوئی بہتری نظر نہیں آتی کیونکہ بڑے سیاسی خاندانوں اور ان کے بیٹوں یا بیٹیوں کی طرف دیکھوں تو وہی طرز سیاست ہے جو ان کے بڑوں نے کیا ہے، کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، وہی زبان ہے، وہی الزامات ہیں، وہی کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے ہیں۔ آج بھی ان نئے سیاست دانوں سے ایسے ہی بیانات سننے کو مل رہے ہیں۔ یہی بیانات سوچنے سمجھنے کے لیے کافی ہیں اگر ہم سمجھنا چاہیں اگر نہ سمجھیں گے تو دھکے کھاتے ہوئے دہائیاں گذر چکی ہیں اور دہائیاں گذریں گی۔ بلاول بھٹو کے بیانات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
بلاول کہتے ہیں "اگر ایک شخص کو چوتھی بار مسلط کیا گیا تو عوام کو نقصان ہو گا۔ ہم جمہوریت پریقین رکھتے ہیں، ہمارا مقابلہ کسی سیاست جماعت یا سیاستدان سے نہیں بلکہ ہمارا مقابلہ، مہنگائی غربت اور بیروزگاری سے ہے۔ 8 فروری کے الیکشن میں ایک شخص کو مسلط کیا جاتا ہے تو اس کا نقصان عوام اٹھائیں گے، آپ نے میری آواز بن کر گھر گھر پہنچنا ہے، میرا پیغام اور منشور پہنچانا ہے، پی پی کو کامیاب کرانا ہے تاکہ ایسی حکومت بنائیں جو عوام کی حکومت ہو، نہ کہ وہ پرانے سیاستدانوں کی پرانی سیاست کی حکومت ہو۔ سازش ہو رہی تھی کہ ایک بار پھر ون یونٹ قائم کیا جائے، ہم نے مل کے اس سازش کوناکام بنایا۔ امیرالمومنین بننے کی سازشوں کو بھی ناکام کیا۔ پیپلزپارٹی نے ان تمام قوتوں کا مقابلہ کیا جو عوام کے حق پرڈاکہ مارنا چاہتی تھیں۔"
اب ان بیانات کے ساتھ کیا نئی سوچ ہو گی یہ بیانات تو بتاتے ہیں کہ آپ اسی یا نوے کی دہائی میں سیاست کر رہے ہیں، ایک مرتبہ پھر نفرت کے بیانیے پر لوگوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بلاول بھٹو کی جماعت دہائیوں سے بالخصوص سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ جن لوگوں سے مخاطب ہیں انہیں کم از کم یہ تو بتائیں کہ ان برسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی میں سندھ میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور تعلیم کی شرح کو بڑھانے کے لیے کتنا کام کیا ہے۔ حقائق کچھ اور ہیں بیانات کچھ اور، پاکستان کے مسائل اپنی جگہ ہیں جنہیں حل کرنے کی سوچ کسی کے پاس نہیں۔ سوچ صرف ایک ہے کہ ایوان وزیراعظم تک کیسے پہنچنا ہے۔ بھولے اور معصوم لوگوں کو جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں سے ووٹ لے کر اقتدار میں تو پہنچ جاتے ہیں لیکن غریب دھکے ہی کھاتا رہتا ہے۔ ہر انتخاب غریب کی غربت، پڑھے لکھے نوجوانوں کی بیروزگاری، عام آدمی کے مسائل، جانے والوں کی چوریوں کی داستانوں پر لڑا جاتا ہے اور ہر انتخاب کے بعد غربت میں اضافہ ہوتا ہے، بے روزگاری بڑھتی ہے، عام آدمی جینے کی جستجو میں روز مرتا ہے اور اسی کشمکش میں پھر انتخاب کا وقت آن پہنچتا ہے۔ اس مرتبہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ پرانے نہیں نئے سیاست دانوں کو موقع دیں، دیکھ لیں کیا ہوتا ہے پرانے سیاستدانوں سے جو سیکھا ہے نئے اسی راستے پر ہی چلیں گے۔
مریم نواز شریف کو سن لیں وہ بھی سارا ملبہ جانے والوں پر ہی ڈالتی ہیں حالانکہ یہ بھی ادھوری تاریخ ہے۔ محترمہ فرماتی ہیں "جو جتنا بڑا ظالم ہوتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا بزدل ہوتا ہے، دوسروں کا احتساب کرتے ہوئے فرعون بنے ہوئے تھے، آج اپنی باری آئی تو جوتیاں چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اللہ تعالی کے فضل سے نواز شریف اور عوام پر ظلم کرنے والا ایک ایک ظالم چن چن کر اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ انتقام ان سے مسلم لیگ (ن) نہیں قدرت کا نظام لے رہا ہے۔ بزدل دم دبا کر جوتیاں چھوڑ کر بھاگے ہیں، استعفی پر استعفی آ رہا ہے۔" یہ باتیں محترمہ نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہیں ان میں کہاں تعمیر ہے اور کہاں ترقی کا پیغام ہے۔ کہاں حقیقت پسندانہ سوچ ہے اور کہاں اتحاد کا پیغام ہے۔ کیا سیاست دانوں کے ایسے بیانات پر عقل سے کام نہیں لینا چاہیے؟؟
ایک طرف بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کو نشانے پر رکھا ہوا ہے تو دوسری طرف جرائم پیشہ عناصر نے شہر قائد روشنیوں کے شہر پاکستان کے معاشی مرکز کراچی کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ نگران حکومت جرائم پیشہ عناصر کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے پریشان ہے اور نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے شہر میں امن و امان کی صورتحال پر آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو خط لکھ کر برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ صوبے کے نگران وزیر اعلیٰ نے خط میں لکھا ہے کہ سندھ کے بڑے شہروں سمیت دیہی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، صوبے میں بڑھتے جرائم میں حالیہ اضافہ کافی تشویش ناک ہے۔ جرائم کی بڑھتی لہر کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔ دیکھیں کوئی ایکشن ہوتا ہے یا نہیں اور جب تک ایکشن ہو اس وقت کتنے ہی لوگ عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو چکے ہوں۔
آخر میں بہادر شاہ ظفر کا کلام
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافل زبھی ایسی تو نہ تھی
چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفر سے ہر بار
خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی