جمعرات، 6رجب المرجب ، 1445ھ،18 جنوری2024ء
آلو بیگن دنیا کی 100 ناپسندیدہ ڈشوں میں شامل
یہ تو برصغیر کی پسندیدہ ڈش کے خلاف سازش ہے۔ جہاں جب کچھ سمجھ نہ آئے تو گھر والے نہایت اطمینان سے کہہ دیتے ہیں چلو پھر آج آلو بیگن پکا لیتے ہیں۔ نجانے کیوں برصغیر میں گرچہ بیگن کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا شاید اس کی وجہ ’’تھالی کا بیگن ‘‘ جیسا محاورہ بھی ہو سکتا ہے مگر کھایا جاتا ہے۔ ورنہ ایران، افغانستان اور وسط ایشیا کی تمام ریاستوں میں بینگن ایک پسندیدہ ڈش ہے جسے ذوق و شوق سے کھایا جاتا ہے۔ کہیں بھون کر کہیں تل کر کہیں اْبال کر یہ بیچارہ تھالی کا بیگن تو گوشت کے ساتھ دہی کے ساتھ ، امچور کے ساتھ بھی مزیدار طریقے سے پکایا جاتا ہے اور کچھ ہو نہ ہو تو بیگن کا بھرتا بھی بنا کر دسترخوان کی زینت بنایا جاتا تھا جسے لوگ ذوق و شوق سے کھاتے ہیں۔ سبزی خور تو اسے پسند کرتے ہیں۔ اب رہے آلو تو ان کی بات ہی نہ کریں وہ ہر جگہ یکساں مقبول ہیں۔ بھرتہ ہو۔ شامی ہو چپس ہوں ہر سبزی کے ساتھ پکتا ہے لطیفہ ہے آلو نے نک چڑی بھنڈی سے کہا کہ آ? ہم اکٹھا پکتے ہیں بھنڈی نے تکبر سے انکار کر دیا کہ تم اس قابل نہیں…اس بات پر آلو کا دل ٹوٹ گیا۔ بھنڈی کو اس غرور کی سزا یہ ملی آج تک وہ کسی سبزی کے ساتھ نہیں پکتی جبکہ آلو ہر سبزی کے ساتھ پکتا ہے۔ شاید یہی عاجزی آلو کے کام آئی ہو۔ مگر نجانے کیوں عالمی صف بندی میں آلو بیگن کو ناپسندیدہ ڈش قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کو آلو بہت پسند ہے اسے شوق سے ہر ڈش میں کھایا جاتا ہے۔ کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا۔
حماس شکست سے بہت دور ہے۔ اسرائیلی وزیر گیعدون سعار
اس حقیقت کو اسرائیل کے حکمران جتنا جلد تسلیم کر لیں اتنا ہی بہتر ہے۔ مگر طاقت کے نشے میں چور امریکہ اور یورپ کی حمایت سے مخمور اسرائیلی حکمران اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ اسرائیل کے اندر تو پہلے سے انصاف پسند یہودی اپنی حکومت ک ے خلاف شور مچا رہے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ بند کرے کیوں جوابی کارروائی میں اسرائیل کے شہری بھی مارے جا رہے ہیں۔ مگر طاقت کے نشے میں اندھے حکمران اس شور شرابے پر کان نہیں دھر رہے۔ اب تو خود اسرائیلی کابینہ کے وزیر بھی کھلم کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ تمام تر مظالم کے باوجود تباہی و بربادی کے باوجود حماس کو شکست نہیں دی جا سکتی وہ آج بھی شکست سے بہت دور ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں انہیں خوف لاحق ہے کہ کہیں ان کے شہروں میں بھی کشت و خون اوربربادی کا یہی کھیل شروع نہ ہو جائے۔ دنیا جانتی ہے مسلمانوں کو شہادت جتنی عزیز ہے غیر مسلموں کو موت سے اتنا ہی خوف آتا ہے۔
اسرائیلی، امریکی ، برطانوی استعماری قوتیں پور ی طاقت اس جنگ میں جھونک چکے ہیں۔ پورا مغرب ان کے ساتھ ہے۔ غزہ قبرستان بن چکا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے مگر فلسطینیوں کے حوصلے آج بھی بلند ہیں۔ وہ جنگی جہازوں توپوں اور ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔24 ہزار سے زیادہ یہ شہداء جب اپنے خدا کے حضور اپنے ہی لہو میں نہائے ہوئے پیش ہوں گے تو ہمارا کیا ہو گا جب ہم سے ان کی مدد نہ کرنے کا سوال ہو گا۔
شیر افضل مروت کا اپنی پارٹی کے رہنما?ں پر حملے اور عمران اسماعیل کا نیا انکشاف
خدا جانے کراچی میں شیر افضل مروت کو جا کر کیا ہو گیا ہے کہ وہ خود کو کپتان ثانی سمجھنے لگے ہیں ویسے ہی سلوک کر رہے ہیں ویسے ہی احکامات دے رہے ہیں لگتا ہے ان میں خان کی روح گھس گئی ہے یوں خان + خان مساوی خان زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت ان کا تختہ مشق خود ان کی اپنی جماعت پی ٹی آئی بنی ہوئی ہے۔ کبھی وہ عارف علوی کو رانگ نمبر قرار دے کر ان کے بیٹے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں جو پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہولڈر ہے۔ کبھی وہ روف حسن جیسے سینئر رہنما کے لئے تضحیک آمیز الفاظ کرتے ہیں جن کو ترجمان پی ٹی آئی کہا جاتا ہے۔ خود پی ٹی آئی کے مرکزی عہدیدار ان کی اس لاف زنی سے پریشان نظر آ رہے ہیں کیونکہ اگر جوابی حملے شروع ہو گئے تو شیر افضل مروت کے ساتھ ان کی بھی شامت آ سکتی ہے۔ مروت تو کہہ رہے ہیں انہیں جیل میں ملاقات میں کپتان نے پی ٹی آئی کی نا? کا ناخدا بنایا ہے یوں وہ اب جہاں چاہیں اسے لے جاتے پھرتے ہیں۔ یہ معاملہ خاصا سنگین ہو سکتا ہے۔مروت نے جے یو آئی شیرانی سے بھی اتحاد توڑ دیا ہے دوسری طرف سندھ کے سابق گورنر نے یہ کہہ کر ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے کہ شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین پی ٹی آئی اپنا علیحدہ گروپ بنانا چاہتے تھے کئی رہنما ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مجھے بھی اپنے گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے یہ لوگ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے ا پنا گروپ بنا کر۔ انہوں نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اب دیکھتے ہیں بیرسٹر گوہر اور شعیب شاہین اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔
لگتا یوں ہے گویا پی ٹی آئی کی کٹی پتنگ لوٹنے والے گلی محلوں کے بچوں کے ہاتھ لگ گئی ہے جو اس کے چیتھڑے اڑانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یوں ایک بڑی جماعت قیادت نہ ہونے کی وجہ سے شتر بے مہار بنی ہوئی ہے اور اس کے اپنے رہنما اس کی ساکھ برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جب جماعت کے اندر ہی توڑ پھوڑ شروع ہو جائے تو پھر اسے باہر سے کسی دشمن کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اپنے ہی کافی ہوتے ہیں۔
مریم نواز کا دورہ لاہور کیا زیادہ رنگ جمانے میں کامیاب ہو سکا
مسلم لیگ نون نے انتخابی مہم چلانے کے لیے مریم نواز شریف میدان میں اتارا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ماضی میں بھی بڑے بڑے جلسے کر کے داد و تحسین سمیٹ چکی ہیں مگر اب معاملہ الٹ ہے اب الیکشن مہم ہے۔ پہلے لوگ انہیں سننے جاتے تھے اب انہیں لوگوں کی سننی ہو گی۔ ہماری سیاسی قیادت اس وصف سے عارف ہے وہ صرف سناتی ہے سنتی کسی کی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ان سب سے متنفر ہو چکے ہیں۔ لاہور کے حوالے سے سب یہی دعوے کرتے ہیں کہ یہ ان کا قلعہ ہے۔ یہی بات مریم نواز بھی کہہ رہی ہیں مگر خدا واسطے کی بات ہے۔ گزشتہ روز جب وہ لاہور کے دورے پر نکلیں تو انہیں خود ہی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اب لوگوں کے مزاج کچھ بدلے بدلے سے تھے۔ ورنہ لاہور وہی اونچے برجوں والا بارہ دروازوں والا شہر ہے۔ جہاں شالامار بھی ہے انار کلی بھی چوبری بھی اور شاہی قلعہ و شاہی مسجد بھی جہانگیر اور نور جہاں بھی یہاں مدفون ہیں حضرت داتا گنج بخش اور علامہ اقبال بھی یہاں آسودہ خاک ہیں۔ اس شہر کو فتح کرنے کا خواب ہر دل میں سمایا ہے۔ مگر یہاں کے مسائل حل کرنے میں وہ دلچسپی کسی نے نہیں دکھائی جس کا یہ شہر اور اسک ے باسی متقاضی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کوئی بھی باہر آئے یا اندر جائے لاہورئیے زیادہ ٹینشن نہیں لیتے۔ ہاں البتہ رونق میلہ لگانے کی عادت چونکہ لاہور والوں کو ہے ہی اس لیے وہ باہر ضرور آتے ہیں اور میلہ دیکھ کر واپس لوٹ جاتے ہیں خدا کرے الیکشن والے دن یعنی 8 فروری کو یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک کھینچ لائیں کیونکہ وہی جماعت جیتے گی جس کے ووٹر ووٹ ڈالنے آئیں گے۔ بڑی بڑی مالدار آسامیاں میدان میں ہیں اس لیے امید ہے ووٹروں کی خوب آئو بھگت ہو گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ووٹر ’’دیکھنے ہم بھی گئیی پر وہ تماشہ نہ ہوا‘‘ کہتے ہوئے چکر لگا کر واپس بھی آ سکتے ہیں۔ یاد رہے دل فتح کرنے کا راستہ معدے سے ہو کر ہی جاتا ہے۔