• news

 عام انتخابات اور ہماری ترجیحات 

عام انتخابات کے انعقاد میں تقریباً تین ہفتے رہ گئے ہیں اور اس سلسلے میں کی جانے والی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ الیکشن کمیشن پرنٹنگ کارپوریشنز کو بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا آرڈر دے چکا ہے اور امید ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ تاخیر ہی سے سہی لیکن عام انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ پاکستان میں اس موقع پر عام انتخابات کا انعقاد بہت ضروری ہے کیونکہ ملک اس وقت سنگین انتظامی اور اقتصادی مسائل کا شکار ہے جن سے نبرد آزما ہونا نہ تو نگران حکومت کا کام ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کی اہلیت یا صلاحیت رکھتی ہے، لہٰذا ایک منتخب اور عوامی حکومت جلد از جلد وجود میں آنی چاہیے جو معاملات کو سدھارنے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ کاش اس بار ایسا بھی ممکن ہوسکے کہ منتخب حکومت اپنی مقررہ مدت پوری کرلے تاکہ اگلے انتخابات میں کسی بھی فرد، گروہ یا جماعت کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ انھیں سیاسی شہادت کی وجہ سے اپنی پالیسیاں پوری طرح نافذ کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں ملا۔
آئندہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو تو بحیثیت جماعت شرکت کا موقع نہیں مل رہا، جو کہ افسوس ناک ہے، لیکن دیگر سیاسی جماعتیں بھرپور طریقے سے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کررہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی وہ اہم ترین سیاسی جماعتیں ہیں جن کے بارے میں یہ بات ایک کھلا راز ہے کہ وہ مرکز اور صوبوں میں کہیں نہ کہیں اپنی جگہ بنا ہی لیں گی۔ ان کے جگہ بنانے کی ایک وجہ ان کی عوامی مقبولیت تو ہے ہی لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جن سیاسی جماعتوں کو پال پوس کر توانا کیا ہے وہ ان کے ساتھ، انگریزی محاورے کے مطابق، گاجر اور چھڑی والا کھیل کھیلتی رہتی ہے اور اس بار نون لیگ اور پی پی پی کے لیے چھڑی کم استعمال ہورہی ہے اور گاجر زیادہ۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے پی ٹی آئی کے بانی اور وابستگان کو اسٹیبلشمنٹ یہ احساس دلانا چاہتی ہے کہ سیاسی معاملات میں اگر ہمارا دستِ شفقت کسی کے سر پر نہ ہو تو پھر اس کو کس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے انتخابات کا انعقاد نہایت ضروری خیال کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ بھی اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات سیدھے کرلیے جائیں اور اسے اس بات کا یقین دلایا جائے کہ ایوانِ اقتدار میں پہنچنے کے بعد ہم پوری دیانتداری سے وہ سب کچھ کریں گے جس کا حکم دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں عوامی مسائل پر کم توجہ دیتی ہیں اور ان کا زیادہ زور اس بات پر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق کیسے ڈھلنا ہے۔ اسی لیے یہاں ترجیحات ایسی بن جاتی ہیں کہ عوام پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان گروہوں کے مفادات بنیادی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کے تارے ہیں۔ ویسے اسٹیبلشمنٹ خود بھی ایسے افراد اور گروہوں کا مجموعہ ہے جو اشرافیہ کہلاتے ہیں، لہٰذا اپنی آنکھ کا تارا یہ لوگ خود ہی ہیں اور اپنے مفادات کو یہ اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے سامنے ملکی اور عوامی مسائل کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی۔
تعلیم اور صحت کسی بھی ملک میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان دونوں شعبوں پر حکومت کتنی توجہ دیتی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس حوالے سے بھی اگر اسٹیبلشمنٹ اور اس کی آشیرباد سے تشکیل پانے والی حکومتوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نہ تو اسٹیبلشمنٹ اور بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل افراد کے بچوں نے عام سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنا ہوتا ہے اور نہ ہی ان لوگوں کو علاج معالجے کے لیے عام سرکاری اسپتالوں کی ضرورت ہے، لہٰذا انھیں اس سے فرق ہی کوئی نہیں پڑھتا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں سے وابستہ ادارے کن مسائل کا شکار ہیں۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ عوام بھی ایسے سانچے میں ڈھل چکے ہیں کہ انھیں ان شعبوں سے جڑے ہوئے مسائل پر بات کرنا پسند ہی نہیں، وہ بس یہ دیکھنا چاہتے ہیںکہ اسٹیبلشمنٹ اس بار کس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی ہے اور کسے تھپڑ مار رہی ہے، اس لیے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر لاحاصل سیاسی بحثیں ہی توجہ کا مرکز بنتی ہیں اور عوام ان بحثوں میں الجھ کر اپنے بنیادی مسائل بھول جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہورہے ہیں جن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے سکولوں اور کالجوں کے ہزاروں اساتذہ کو تربیت دی جارہی ہے جس سے تدریسی عمل متاثر ہورہا ہے۔ مارچ میں نویں اور دسویں کے امتحانات ہورہے ہیں اور اس کے بعد گیارھویں اور بارھویں کے امتحانات ہونے ہیں، لہٰذا ان جماعتوں کے طلبہ کے لیے یہ دن بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں کیونکہ تعلیم بطور قوم ہماری ترجیح ہی نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ ہمیں دن رات یہ بتا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کس سیاست دان اور سیاسی جماعت کو گاجریں کھلا رہی ہیں اور کسے چھڑی سے مار رہی ہے، اور قوم کی ساری توجہ صرف اسی معاملے پر مرکوز ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بننے کا خواب تعبیر کے سانچے میں ڈھلتا تو ہرگز دکھائی نہیں دے رہا لیکن خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے ہم سب مل کر خواب دیکھتے جارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ امید بھی ہے کسی دن کوئی مسیحا آئے گا اور ان خوابوں کو خود ہی پورا کردے گا۔

ای پیپر-دی نیشن