اُداس میلہ
یہ بھی سردی کی لہر کے عروج کا ایک دن تھا۔ لاہور سے ہم دوست ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے فیسٹیول میں جا شریک ہوئے۔ اتوار کے روز اکثر لوگوں کی صبح دو اڑھائی بجے ہوتی ہے۔ فجر کی نماز ادا کی اور پھر سو گئے۔ کچھ گیارہ بارہ بجے بھی اٹھنے والے ہونگے۔ ہم دس بجے شعیب مرزا کی معیت میں فاروق آباد کے ایک پر سکون مقام پر واقع فارم ہاؤس میں موجود تھے۔ یہ شہر اور مین روڈ سے کچھ فاصلے پر ہے۔ گاڑی سے اتر کرسردی بلکہ شدید سردی کا احساس ہوا۔ لگتا تھا گرمیوں میں سوا نیزے پر آجانے والا سورج آج آنکھ نہیں کھولے گا۔ فیسٹیول کا اہتمام کرنے والوں نے مہمانوں کی خاطر تواضع کے انتظامات کر رکھے تھے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جایا گیا جہاں بڑی انگیٹھی میں لکڑی کے کوئلے دہک رہے تھے۔ چھ سات لڑکیاں نیم دائرے کی صورت میں بیٹھی تھیں۔سامنے ایک لوک اور فوک گلوکارنغمہ سرا تھے۔ ہمارے وہاں جانے پر خواتین اٹھ گئیں۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، فیسٹیول کی رونقیں دوبالا ہوتی چلی گئیں۔ اسے فش فیسٹیول کا نام دیا جاتا ہے جو کم از کم سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے۔اس 25ایکڑ کے احاطے میں دو تالاب ہیں جن میں مچھلیاں پالی جاتی ہیں۔
اس چاردیواری کے اندر باغ ہے، فصلیں ہیں، مال مویشی بھی ہیں، پولٹری فارم،کیٹل فارم، بکریوں کا باڑہ ہے۔
تھوڑی دیر میں سازندے کے ہم آواز باہر ڈھول کی تھاپ بھی شروع ہوگئی۔دو گھوڑے ناچ کرنے لگے۔ ان پر شوقین نوجوان سوار ہو کر تصویریں ، ویڈیو بنواتے رہے۔ دوسری طرف بندریا کا سردی میں ناچ بھی ہو رہا تھا۔ رنگ برنگے زرق برق لباسوں میں ملبوس بچے، لڑکیاں، خواتین بگھی کی سیر کر نے میں مصروف تھیں۔ سردی کا ایک اپنا ہی لطف ہے جس سے فش فیسٹیول کے شرکاء لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اسی دوران عمران مرتضیٰ بھی ساتھیوں سمیت لاہور سے آگئے۔ دور دراز سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ مقامی لوگ موجود تھے۔ سورج بدستور گہری نیند سو رہا تھا جس کے باعث ٹھنڈ کیلئے اپنا جو بن دکھانے کا پورا موقع موجود تھا۔ جسے اس نے ضائع نہیں کیا۔
یہ فیسٹیول مہمانوں کی ضافتِ طبع کے لیے نہیں بلکہ حیران کن طور پر میزبانوں کی تفریح طبع کے لیے منعقد ہوتا ہے۔ یہ میزبان خاص اور خصوصی میزبان ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے تقدیر اور قدرت کبھی کبھی روٹھ جاتی ہے۔ ان لوگوں کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں ایسے بھی ہیں جوخود تک کو نہیں پہچانتے۔ اپنے آپ کو نہیں جانتے۔ ایسی حالت میں پیدائشی طور پر بھی ہیں اور زیادہ تر وہ ہیں جوعمر کے کسی بھی حصے میں ذہنی الجھن کا شکار ہوئے اور خود سے بیگانہ ہوگئے۔ بیگانگی کی کیفیت عارضی بھی ہو سکتی ہے۔ ان کو ان کی عزت نفس کے احساس کی خاطر مریض نہیں ممبر کہا جاتا ہے۔ اس فارم ہاؤس میں جدید طرز پر تعمیر شدہ عمارتیں بھی ہیں۔ جہاں خصوصی افراد رہائش پذیر ہیں۔ دس بارہ سال کے بچوں کے ساتھ ساتھ 70سال تک کے بزرگ موجود ہیں۔70خواتین بھی ’’کمپیشن ہومز‘‘ میں بحفاظت رکھی گئی ہیں۔
یہ فاؤنٹین ہاؤس لاہور کی ایک شاخ ہے۔ دیگر شاخیں سرگودھا اور فیصل آباد میں ہیں۔ لاہور فاؤنٹین ہاؤس کے ایم ایس ڈاکٹر کامران مرتضیٰ ہیں وہی ساری شاخوں کو دیکھتے ہیں جبکہ اخوت والے امجد ثاقب اس منصوبے کے روح رواں ، سرپرست اور سربراہ ہیں۔فاؤنٹین ہاؤس کی بنیاد رشید چودھری نے رکھی جو اس کے واحد بانی ہیں جبکہ ان کے بنیادوں میں گنگا رام کی انسانیت دوستی کی خوشبوئیں رچی بسی ہیں۔گنگا رام نہ مذہبی راہنما تھے نہ ہی روحانی پیشوا تھے وہ انجنئیر تھے مگر انہوں نے ہندو روایات بدل دیں ہندو عقیدے میں اصلاح کی۔ ان کا وِڈو ہاؤس(بیوہ گھر) سے فاؤنٹین ہاؤس بننے تک سے گہرا تعلق ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔اخوت کی طرح فاؤنٹین ہاؤس بھی شفافیت، خدمت، محنت اور عظمت کا سنبل بن چکا ہے۔
لاہور سے جانے والے ہم میڈیا کے لوگوں کو ادارے کا وزٹ کرایا گیا۔ خصوصی افراد سے ملاقاتیں کرائی گئیں۔ ان میں پڑھے لکھے بلکہ ہائیلی کوالیفائیڈ افراد بھی ہیں۔ جن کو تقدیر کسی ذہنی الجھن کے باعث جہاں لے آئی۔ اکثر ایسے ہیں جو کبھی کبھی خود فراموش ہوتے ہیں، ان کو صرف اور صرف اپنائیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ان میں سے کئی کے لواحقین انہیں بوجھ سمجھ کر جہاں چھوڑ گئے اور پھر کبھی خبر نہ لی ، واپس لے جانا تو دور کی بات ہے۔
میرے ایک دوست کہہ رہے تھے جس میں ذہن ہے وہ ذہنی مریض بن سکتا ہے۔ فاؤنٹین ہاؤس میں ایسے ہی لوگ جاتے ہیں۔ روحی بانو پڑھی لکھی اداکارہ تھیں وہ بھی ایک عرصہ فاؤنٹین ہاؤس میںں داخل رہیں اور صحت یاب ہو کر گھر چلی گئیں۔بہت سے افراد تندرست اور نارمل ہو کر واپس چلے جاتے ہیں کچھ مستقل یہیں رہ رہے ہیں۔
’’کمپیشن ہومز‘‘ میں ان خواتین کو رکھا جاتا ہے جن کے والدین کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہوتا ہے اور ان خواتین کو پوری طرح سے دماغی صلاحیتیوں سے سرفراز نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں مسائل کا سامنا ہو سکتاہے۔ زین کو والدین ملے ہر خصوصی بچے کے نصیب میں نہیں ہوتے۔زین جنرل ضیاء الحق کی صاحبزادی ہیں ان کا علاج رشید چودری کیا کرتے تھے رشید چودری کے بعد کی تو جنرل ضیاء الحق نے 1981 میں 25 ایکڑ کتا فائونٹین ہاؤس کو الاٹ کر دیا۔زین کے والدین وفات پا گئے تو زین کو ان کے بھائیوں نے بیٹی کی طرح اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔
کمپیشن ہومز میں بچیاں اور ادھیڑ عمر کی کچھ خواتین بھی موجود ہیں۔ ان سے ملاقات کے دوران رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ یہ اپنے خاندانوں کو عزیزوں کو ، بہن بھائیوں کو یاد کر کے روتی ہیں۔ ان کی خصوصی طور پر حفاظت کی جاتی ہے۔
دن کے پچھلے پہر سورج نے انگڑائی لی، ہلکی سی دھوپ نکلی تو سردی نے نقاب اوڑھ لی، اس دوران وہ سیشن اختتام پذیر ہوا جس سے خطابات ہوئے۔یہ ادارہ ڈونیشن پر چل رہا ہے۔ اسکی وزٹ اورسیشن کے اختتام پر میں سوچ رہا تھا مجھ میں ایسا کیا خاص ہے کہ میں ان خصوصی لوگوں میں شامل نہیں ہوں۔یہی آپ سے بھی سوال ہے؟یہ ہم پر آللہ کی خاص کرم نوازی ہے۔قدرت کاملہ کا شکر اداکریں اور اس کا بہترین طریقہ ان لوگوں کی ڈونیشن کے ذریعے مدد کرنا ہے۔یہ ایک سیڈ فیسٹیول یعنی اداس میلہ تھا جس میں پھر شرکت کی خواہش ہے۔