• news

پی ٹی آئی کو چن چن کر عجیب غریب انتخابی نشانات الاٹ کر دیئے گئے

عام انتخابات 2024 کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتے کرتے پاکستان تحریک انصاف پلیئنگ فیلڈ ہی گنوا بیٹھی ہے انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات کی بنا پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کے بعد عدالتی جنگ میں بلا ان اور بلا آؤٹ ہونے کے فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے پر مہر تصدیق  ثبت کر دی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی نے اگلے روز سپریم کورٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہمی کے حوالے سے دائر درخواست ہی واپس لے لی، انتخابی نشان سے محروم ہونے کے بعد پی ٹی ائی کے امیدواران کو ریٹرننگ ا ٓفیسرز کی جانب سے بطور آزاد امیدوار منتخب مختلف انتخابی نشان الاٹ کردیے کسی کو انتخابی نشان بوتل الاٹ کیا گیا تو کسی کو جوتا، کلاک، چمٹہ، ریکٹ ،ریڈیو بینگن، ڈائس چینک، کھسہ، لیپ ٹاپ مور جیسے دیگر نشانات الاٹ کیے گئے ہیں سردار لطیف خان کھوسہ کو تو انگریزی لفظ k انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے سوال یہ ہے کہ اس قسم کے انتخابی نشان جو عام اور ناخواندہ لوگوں کے لیے کس طرح قابل فہم ہو سکتے ہیں اور یہ انتخابی نشانات خصوصی طور پر اس بار انتخابی نشانات لسٹ میں شامل نہیں کیے گئے حیرت انگیز طور پر یہ نشانات پہلے سے ہی انتخابی نشانات کی فہرست میں شامل ہیں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے مطابق آراوز کو انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے حوالے سے امیدواروں سے رائے لینا چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا اورانہیں چن چن کر عجیب غریب انتخابی نشانات الاٹ کردیے گئے ۔
پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھن جانے پر دیگر سیاسی جماعتوںکے قائدین کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آرہاہے پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان ہونے پر پوری مسلم لیگ (ن)نے سخت ردعمل کا اظہار کیا مگراب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے بیان دیاگیا ہے کہ انکی خواہش ہے کہ بلا الیکشن میں ہوتا 9 مئی نہ ہوتا توعمران انتخابی مہم میں شامل ہوتے دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلا کا انتخابی نشان آؤٹ ہونے پر عوام سے شیر کے شکار کیلئے تیر کے نشان پر مہر لگانے کا مشور ہ دیا ہے ۔
تا ہم اب صورتحال تقریبا کلیئر ہو چکی ہے پارٹی انتخابی نشان نہ ہونا پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے اس لیے ان کے ووٹرز کی بڑی تعداد مایوسی کا شکار ہوئی ہے اور ان کے امیدوار رو ں کامورال بھی گرا ہے اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم شروع کیے ہوئے ہیں بلاول بھٹو زرداری اس دوڑ میں آگے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہ تقریبا ایک ماہ قبل سے ہی ملک بھر کے مختلف علاقوں میں انتخابی جلسوں کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں اب پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی اپنی بھرپور انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز کامیاب انتخابی جلسے کر رہی ہیں مسلم لیگ ن کے شیڈول کے مطابق میاں محمد نواز شریف بھی آئندہ چند دنوں میںعوامی جلسوں میں جلوہ افروز ہوں گے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران تاحال اپنی انتخابی مہم شروع نہیں کر سکے بیشتر امیدواران تاحال منظر عام سے غائب ہیں اسی طرح جو امیدواران مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں اور اشتہاری ہو چکے ہوں وہ تو سرے سے ہی انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہیں جنوبی پنجاب کے مرکز ملتان میں عام انتخابات 2024 کے حوالے سے خاصی دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر جہاں مسلم لیگ ن میں دھڑا بندی کھل کر سامنے آئی وہیں ٹکٹ نہ ملنے پر متعدد لیگی رہنماؤں نے مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ دیامسلم لیگ ن نے اس بار پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتمادمیں ساتھ دینے والے منحرف پی ٹی ائی اراکین اسمبلی کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے انہیں اپنے دیرینہ کارکنوں پر ترجیح دی۔ اس ضمن میںاین اے 148 میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن احمد حسین ڈہیڑ کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا اس حلقے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ہیں اور پی ٹی آئی کے امیدوار بیرسٹر تیمور ملک ہیں جو کہ نئی انٹری ہے اسی طرح این اے 153 میں پی ٹی ائی کے منحرف رکن رانا قاسم نون رانا قاسم ن کو مسلم لیگ نون کا ٹکٹ دیا گیا این اے 150 میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے سابق ایم پی اے جاوید انصاری کو مسلم لیگ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا جس پر مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا محمود الحسن ا ور ان کے پورے گروپ نے مسلم لیگ ن کو خیر اباد کہہ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور این اے 150 میں اس وقت رانا محمود الحسن اور صوبائی سیٹ پر رانا سراج اقبال پی پی کے امیدوار کے طور پر سامنے اگئے ہیں اس حلقے میں پی ٹی ائی کے امیدوار مخدوم زین قریشی امیدوار ہیں جن کا انتخابی نشان جوتا الاٹ کیا گیا ہے اسی طرح مسلم لیگ ن نے ملتان شہر کے حلقہ این اے 149 میں استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹ کرتے ہوئے جہانگیر ترین کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا ہے اس حلقے میں ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ملک عامر ڈوگر سے ہوگا اسی حلقے میں مخدوم جاوید ہاشمی بھی ہیں جہانگیر ترین ملتان سمیت لودہراں سے بھی الیکشن میں حصہ کے رہے ہیں۔
 پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی قائد سابق وزیراعظم سے یہ یوسف رضا گیلانی اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ انتخابی میدان میں ہیںسید یوسف رضا گیلانی کل کا 148 ان کے صاحبزادے سید علی موسی گیلانی این اے 151 سے میدان میں ہیں این اے 152 سے سید عبدالقادر گیلانی ا ور پی پی سید علی حیدر گیلانی امیدوار ہیں اس بار پاکستان پیپلز پارٹی کی پارٹی میں شمولیت سے ملتان شہر میں مضبوط ہوئی ہے مبصرین کے مطابق رانا گروپ کی جانب سے مسلم لیگ ن چھوڑنا ملتان میں ن لیگ کیلیئے دھجکا ہے مگر مسلم لیگ ن نے بھی ان کے متبادل اچھے امیدواران کا چنا? کیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے کارکن اور ووٹرزامیدواروں کو پارٹی میں دل سے قبول بھی کرتے ہیں کہ نہیںاسی طرح متعدد متعدد کا رکن ایم پی اے منتخب ہو کر صوبائی وزیر رہنے والے دیرینہ مسلم لیگی رہنما حاجی احسان الدین قریشی سابق گورنر رفیق رجوانہ کے صاحبزادے آصف رجوانہ دیرینہ کارکن ملک انور علی اختر عالم قریشی پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے مزید برآں عام انتخابات 2024 کی تیاریاں مکمل ہونے اور انتخابات کے انعقاد میں چند ہفتے باقی رہ جانے کے باوجود انتخابی گہما گہمی کا ماحول تاحال نہیں بن سکا ووٹرز میں جوش و جذبہ ہے نہ ہی تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواران اس طرح متحرک ہیں جس طرح ماضی میں سر دھڑ کی بازی لگا کر میدان میں متحرک دکھائی دیتے رہے ہیں اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ الیکشن 2024 کے لئے انتخابی جوش و خروش مفقود ہے اور عوام تا حال لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن