بلاول کی " نئی سوچ چنو' دستاویز جاری ‘ غربت کے خاتمہ سمیت کئی ایشوز کا حل تجویز
اسلام آباد (عترت جعفری ) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گزشتہ روز" نئی سوچ چنو' کے عنوان سے ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں غربت کے خاتمہ‘ زراعت‘آئی ٹی، پاور سیکٹر، یوتھ کارڈ ،کسان کارڈ، ماحولیات اور دوسرے سیکٹرز کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالنے کے علاوہ ان ایشوز کا حل تجویز کیا ہے، 'نئی سوچ چنو 'کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں خط و غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی کل تعداد نو کروڑ 30 لاکھ ہے، انرجی سیکٹر میں انہوں نے اس کا حل قابل تجدید توانائی بتایا ہے، غذائی سیکٹر میں غریب عوام کے تحفظ کے لیے غذائی حقوق کے قانون کو منظور کرانے کی بات کی ہے، تعلیم کے فروغ کے لیے وعدہ کیا گیا ہے پرائمری سکول ہر 30 منٹ کی مسافت پر ملے گا، 30 لاکھ نئے گھر بنا دیں گے، نجکاری کے اہم ایشوز پر پیپلز پارٹی کی دستاویز خاموش ہے، تاہم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا ایک تصور دیا گیا ہے جس کے تحت گرین انرجی پارک بنائے جائیں گے دستاویز میں اخراجات میں بچت کے دو اقدام تجویز کئے گئے ، پہلا یہ ہے 1500 ارب روپے کی جو سبسڈیز دی جاتی ہیں ان کو ختم کیا جائیگا اور 17 نئی وزارتیں ختم کر کے 328 ارب روپے بچائے جائیں گے، اس طرح 1800 ارب روپے بچانے کی بات کی ہے، اس طرح بلاول بھٹو کے وعدے بہت خوش کن ہیں ، ووٹرز کو متاثر کر سکتے ہیں، مگر بہت ہی چیلنجنگ معاملات ہیں، پیپلز پارٹی جو اس وقت 80 سے 90 نشستوں کی امید کے ساتھ میدان میں موجود ہے، کیا اس کے پاس ان وعدوں کو سرانجام دینے کے لیے ایسی معاشی، سیاسی ٹیم موجود ہے، کیاقابل عمل پلان موجود ہے؟ کہ اسے موقع ملے تو اقتدار کے پہلے دن اس پر عمل شروع کر دے ، پاکستان جو اس وقت آئی ایم ایف عالمی بینک اے ڈی بی، مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والے دو طرفہ معاہدوں، سی پیک سمیت مختلف ذمہ داریوں کے تحت ہے ، ملک کے بجٹ کا زیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے، ملک کیسے 300 یونٹ بجلی فری سمیت دیگر وعدوں کی پاسداری کر سکے گا؟بجلی کے سیکٹر کو ہی لے لیں، اس سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ کھربوں روپے میں جا چکا ہے، 300 یونٹ تک بجلی فری دینے کا مطلب یہ ہے قومی صارفین کا 67 پرسنٹ حصہ بل سے باہر چلا جائے گا ، یعنی حکومت اس بل کو بھرے گی، تو اس کے لیے آئی ایم ایف ورلڈ بینک کو کیسے راضی کیا جائے گا، اس بات میں اپ کوئی شبہ نہیں پاکستان کو تین سال کا ایک نیا پروگرام آئی ایم ایف سے لینا پڑے گا، اس پروگرام میں رہتے ہوئے اس گنجائش کو نکالنا بہرحال ایک بہت بڑا ٹاسک ہو گا ، پاکستان میں آئی پی پیز لگے ہوئے ہیں، ان میں سے بعض کی کپیسٹی پیمنٹ 2040 تک جاری رہنی ہے، سرکاری تحویل کے کاروباری ادارے بہت بڑا چیلنج ہے ان سے کیسے نبٹنا ہے؟ اس وقت ایف بی آر کی تشکیل نو کی بات ہو رہی ہے ،دستاویز میں بھی ایک اہم بات کی گئی ہے اشیا پر جنرل سیلز ٹیکس وصول کرنے کی زمہ داری صوبائی ریونیو اتھارٹیز کو دے دی جائے گی، یعنی ایسا ہو جائے تو ایف بی آر صرف انکم ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ بن جائے گا، ایف بی آر کو پہلے ہی ان لینڈ ریونیو اور کسٹم ڈیپارٹمنٹ تقسیم کرنے کا معاملہ کافی آگے بڑھ چکا ہے، اور ممکنہ طور پر اس بارے میں قانون سازی آئندہ پارلیمنٹ میں ہو جائے گی۔