ایرانی جارحیت پر پاکستان کا مسکت جواب مسلم دنیا استعاری ایجنڈے کو ہرگز کامیاب نہ ہونے دے
ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف اور بلوچستان کے علاقے میں میزائل حملے کے باعث پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں کشیدگی کی فضا پیدا ہو گئی ہے اور بھارتی جنونیت اور توسیع پسندانہ اقدامات کے علاوہ اب ایران کی جانب سے بھی پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنے سے علاقائی امن و سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ پاکستان نے ایرانی فضائی جارحیت کے خلاف فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کئے۔ ایران کے سفیر کو پاکستان سے چلے جانے کا حکم دیا اور پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو کو ایران سے واپس بلوالیا۔ ایران کو دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے سخت وارننگ دی گئی اور پھر جمعرات کی علی الصبح پاک فضائیہ نے ایران کے شہر سروان کے قریب کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانوں پر جوابی میزائل حملہ کیا۔ ایران کی خبر رساں ایجنسی نے سروان کے قریب ہونیوالے میزائل حملے کی تصدیق کی اور بتایا کہ اس حملے میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیں تاہم ان ہلاک شدگان کا ایران سے کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان نے میزائل حملے کے وقت ایران کے کسی سویلین یا فوجی ہدف کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جس کی ایرانی خبر ساں ایجنسی نے بھی تصدیق کی۔
پاکستان اور ایران کے مابین پیدا ہونیوالی کشیدگی کے باعث نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ ڈیووس میں منعقد ہونیوالے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کو چھوڑ کر اور اپنا دورہ مختصر کرکے پاکستان واپس روانہ ہو گئے۔ اسی طرح ایران میں موجود ایک پاکستانی وفد بھی اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر پاکستان واپس آگیا۔ بلوچستان کے ضلع پنجگور کے ایک گائوں میں ایرانی میزائل حملے پر دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے فوری طور پر جو بیان جاری کیا گیا اس میں باور کرایا گیا کہ ایران کی جانب سے یہ حملہ بلااشتعال اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا جوانتہائی قابل مذمت ہے۔ بیان میں ایران کو باور کرایا گیا کہ جب پاکستان اور ایران کے مابین دوطرفہ کمیونیکیشن کے متعدد ٹریکس موجود ہیں تو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اور پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر اسکی آبادی پر میزائل حملہ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ایران کو سو بار سوچنا چاہیے تھا کہ اسکے کتنے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ پاکستان نے یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کی قومی سلامتی اور قومی مفادات پر کوئی مفاہمت نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان یو این چارٹر کے اصولوں پر قائم ہے اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان ایران کے ساتھ دہشت گردی سمیت مشترکہ چیلنجز پر دوطرفہ بات چیت کا قائل ہے جس سے کبھی گریز نہیں کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کو ایران میں بلوچ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا عرصے سے علم ہے جس سے ایران کو آگاہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری امن کی خواہش کو کوئی ہماری کمزوری نہ سمجھے۔ ایران میں موجود سرمچار دہشت گرد بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے ہیں جن کو نکیل ڈالنا ایران کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایران کی جانب سے دوبارہ پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوروز قبل جیسی کوئی کارروائی کی گئی تو پاکستان پہلے کی طرح فوراً بھرپور جواب دیگا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ حسن امیر عبداللیحان نے گزشتہ روز خود تسلیم کیا کہ ایران نے پاکستان کو اعتماد میں لئے اور اسکے ساتھ انفرمیشن شیئر کئے بغیر بلوچستان کے علاقے میں ایرانی دہشت گرد گروہ کو نشانہ بنایا ہے جبکہ ایران کی خبررساں ایجنسی تسنیم نیوز کے مطابق ایران کے پاسداران انقلاب کی جانب سے پاکستان کی حدود میں جیش العدل نامی عسکریت پسند تنظیم کے ٹھکانوں پر ڈرون اور میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایران نے بلوچستان کی ایک سویلین آبادی پر حملہ کیا جس سے دو معصوم بچیاں شہید اور ان کی والدہ زخمی ہوئی۔ پاکستان نے ایران کے اس یکطرفہ اقدام پر ہی جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان کے علاقے سروان میں دہشت گردوں کے مخصوص ٹھکانوں پر انتہائی مربوط فوجی کارروائی کی جسے ’’مرگ برسرمچار‘‘ کا کوڈ نام دیا گیا۔ اس کارروائی میں متعدد دہشتگرد مارے گئے جن کے بارے میں دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردوں کے ان ٹھکانوں کے بارے میں ایران کو آگاہ کرتا رہا ہے اور پاکستان نے ان دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد بھی متعدد ڈوزیئرز کے ذریعے شیئر کئے ہوئے ہیں۔ یہ امر واقع ہے کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کا کلبھوشن نیٹ ورک ایران کے راستے ہی سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتا رہا ہے جبکہ کلبھوشن کو پاک ایران سرحد سے ہی بلوچستان میں داخل ہوتے وقت حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ایران مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگاتا ہوا اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد اسرائیل کو سبق سکھانے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے اعلانات کرتا رہا مگر اس نے اپنے اس دعوے کے برعکس یہ تاثر دے کر یکے بعد دیگرے عراق‘ شام اور پاکستان پر میزائل حملے کردیئے کہ یہاں اسرائیلی دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں جو غزہ میں قتل و غارت کے ذمہ دار ہیں۔ چند روز قبل ایران کی جانب سے اپنے جدید میزائل سسٹم کا بھی تجربہ کیا گیا جس کی رینج اسرائیل تک ظاہر کی گئی مگر اسکے برعکس ایران نے اسرائیل پر حملہ کرنے کے بجائے اپنے برادر مسلم پڑوسی ممالک کو ہی نشانے پر رکھ لیا جو بادی النظر میں اسرائیل کو محفوظ کرنے کی کسی عالمی استعاری منصوبہ بندی کا حصہ نظر آتا ہے۔ اب فطری طور پر دنیا کی توجہ اسرائیلی مظالم سے ہٹ کر ایران پاکستان کشیدگی پر مرکوز ہو گئی ہے جس سے یقیناً اسرائیل پر عالمی دبائو کم ہوگا۔ اس تناظر میں ایران کے اس اچانک اقدام کے پس پردہ محرکات پر بھی سوالات اٹھیں گے اور اس امر کا ازسرنو جائزہ لینا بھی ضروری ہو جائیگا کہ بھارت نے ایران کو چاہ بہار پورٹ کی تکمیل میں معاونت کی کیوں پیشکش کی تھی اور افغانستان کی اس وقت کی اشرف غنی کی حکومت کو اپنی تجارتی راہداری پاکستان کے گوادر پورٹ کی بجائے ایران کے چاہ بہار پورٹ کے ساتھ منسلک کرنے کی کیوں ترغیب دی تھی۔ اب ایران کے پاکستان پر اچانک حملہ آور ہونے سے بھارت‘ افغانستان اور ایران کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور ممکنہ طور پر خطے کے امن و استحکام کیلئے پاکستان اور چین کی باہمی مربوط حکمت عملی اور سی پیک کے اپریشنل ہونے پر پاکستان چین دوطرفہ اور علاقائی تعاون کو سبوتاڑ کرنے کی سازش بھی پاکستان پر ایران کے میزائل حملے میں کارفرما ہو سکتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر مسلم دنیا کو باہم الجھانے اور اسے انتشار کا شکار کرکے اتحاد امت کو توڑنے کا الحادی استعماری قوتوں کا ایجنڈا ہے جس کے تحت مسلم ممالک کو ٹریپ میں لا کر انہی کے ذریعے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم دنیا کو اس کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے اور الحادی قوتوں کے کسی ٹریپ میں نہیں آنا چاہیے۔ ہمارے خطے میں بھارت اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اتحاد امت کو توڑنے کے استعماری ایجنڈے پر ہی کام کر رہے ہیں۔ ہمیں بہرصورت اپنی بقاء کا تحفظ ہی سب سے زیادہ عزیز ہے جس میں کسی لغزش یا کمزوری کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسی بنیاد پر دفاع وطن کیلئے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔