جمعۃ االمبارک‘ 7 رجب المرجب 1445ھ ‘ 19 جنوری 2024ء
فرانسیسی وزیر تعلیم کو اپنے بچے نجی سکول میں داخل کرانے پر تنقید کا سامنا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے عوام جمہوریت کے صرف نعرے نہیں لگاتے، جمہوری روایات پر عمل بھی کرتے ہیں۔ وہاں سیاستدان عوام کو بے وقوف نہیں بناتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرناممکن نہیں۔ خود یہ سیاستدان بھی چونکہ عوام سے ہی ہوتے ہیں اور ساری زندگی جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے آئے ہیں اس لیے ان کے رگ و پے میں جمہوریت اور قانون کی پاسداری رچ بس گئی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا یہاں اشرافیہ اور عوام کا فرق حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بہت پایا جاتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں فرانس کی وزیر تعلیم اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ ان کا جرم کہہ لیں یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچے سرکاری سکول کی بجائے نجی سکول میں داخل کرائے۔ دنیا بھر میں نجی سکول مہنگے ہوتے ہیں وہاں کا تعلیمی نظام بھی جدا ہوتا ہے۔ وہاں اشرافیہ کے بچے نجی تعلیمی اداروں پڑھتے ہیں۔ اب چونکہ موصوفہ وزیر تعلیم ہیں اس لیے انہیں رگیدا جا رہا ہے کہ کیا انہیں اپنے سکولوں پر اعتبار نہیں۔ کیا وہ سرکاری سکولوں کے نظام تعلیم سے مطمئن نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر وزارت تعلیم سرکاری سکولوں کے نظام تعلیم سے مطمئن نہیں۔ اگر ایسا ہے تو وزارت تعلیم سرکاری سکولوں کو اعلیٰ درسگاہ کیوں نہیں بناتی جہاں کروڑوں لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں مغربی ممالک کا نظام تعلیم بہرحال سرکاری ہو یا نجی بہت اعلیٰ ہے۔ مگر طبقاتی تفریق تو بہرحال رہتی ہے جس سے فرانسیسی عوام متنفر ہیں۔
مگر ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہم تو ووٹ بھی انہیں دیتے ہیں جنہوں نے کبھی عوامی زندگی بسر نہیں کی۔ عوامی سکولوں اور ہسپتالوں کی شکل تک نہیں دیکھی۔ وہ تو پیدا ہی یورپی ہسپتالوں میں ہوتے ہیں یورپی نجی سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ سچ کہیں تو مرتے بھی انہی کے ماحول میں ہیں اور جیتے بھی۔ یہی عوام کی غلطی ہے کہ وہ عام کی بجائے خواص کو اپنی گردنوں پر مسلط کرتے ہیں اور پھر روتے ہیں کہ ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جو ہمارے مسائل سے آگاہ نہیں وہ ہمارے مسائل کیا خاک حل کرے گا۔
٭٭٭٭٭
سردی نے ڈیرے ڈال لیے دھند سموگ کے ساتھ خشک سردی قیامت ڈھانے لگی۔
لگتا ہے اس بار تو پورے سال کی سردی جنوری میں ہی پڑنی ہے۔ لوگ کراچی تا کشمیر ٹھٹھر کر رہ گئے ہیں۔ اوپر سے خشک سردی نے بیماریوں کے جلو میں گھر گھر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ بچے اور بوڑھے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ دور دور تک بارش کا امکان نہیں ورنہ پہلے تو جنوری میں پہاڑی علاقے برفباری اور بارش کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کھینچ لیتے تھے۔ اس بار معاملہ ٹھنڈا ہے۔ گیس ندارد، بجلی کمیاب ہے، گھروں کو گرم رکھنے کی تو بات چھوڑیں کھانا پکانے کے لیے کچن میں گیس کے سلنڈر لانے پڑ رہے ہیں۔ اوپر سے دھند اور سموگ نے الگ ’’وختہ‘‘ ڈال رکھا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے باسی ایسی کڑاکے کی سردی کے عادی نہیں۔ کراچی والے تو درجہ حرارت 18 یا 25 سینٹی گریڈ ہو تو کانپتے ہوئے کہتے ہیں یاراب کے تو غضب کی سردی پڑ رہی ہے۔ لاہور والے پھر بھی 5 سینٹی گریڈ تک ہنستے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بار تو سردی ہی نہیں پڑی۔ مگر اب کے تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ ہر جگہ دانت بج رہے ہیں ورنہ دونوں صوبوں میں سردیاں قہوہ، چائے اور گرما گرم سوپ کی چسکیاں لیتے ہوئے لوگ مزے میں اڑاتے تھے۔ دیہات ہوں یا شہر ہر جگہ سردی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بس شرط وہی کہ یہ سردیاں مناسب حد تک رہیں۔ اس بار تو معاملہ طویل ہو گیا ہے۔ لاہور پشاور اور کراچی کوئٹہ بن گیا ہے۔ لوگ دعائیں کر رہے ہیں کہ باران رحمت کا نزول ہو تاکہ اس خشک سردی کے ساتھ دھند اور سموگ سے بھی نجات ملے۔
ورنہ چائے کا کپ 60 روپے میں اور مونگ پھلی چغلوزے کی قیمت پر بک رہی ہے جس نے سردی میں چسکیاں لینا اور منہ چلانا مشکل کر دیا ہے۔ اب تو ہوٹل کے پاس سے یا مونگ پھلی کی ریڑھی کے قریب سے بس خوشبو سونگھ کر یا نظر بھر کے دیکھ کر ہی گزرا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
پسنی کے پہاڑوں سے 8 ارب 21 کروڑ روپے کی چھپائی چرس برآمد۔
معلوم نہیں یہ پہاڑ میں چرس چھپائی گئی تھی یا چرس کا پہاڑ بنایا گیا تھا۔ نجانے کتنے عرصے سے کتنی محنت سے سمگلر یہ منشیات یہاں لا لا کر جمع کر رہے تھے۔ ان بے چاروں کی ساری محنت یوں پل بھر میں اکارت گئی۔ ان میں سے اکثر منشیات کا زہر لوگوں کی رگوں میں اتارنے والے سمگلروں پر تو قیامت ٹوٹ پڑی ہو گی۔ خدا کرے وہ اس صدمے سے ہی واصل جہنم ہوں تو بہت اچھا رہے۔ ملک میں کروڑوں افراد کو نشہ کی لت میں مبتلا کرنے والے یہ لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ملک میں اس وقت سب سے آسانی سے دستیاب ہونے والا نشہ یہ چرس ہی تو ہے جس کے بارے میں مشہور ہے ’’لگاؤ دم مٹے غم‘‘ یا ’’آئو خیر فلک سیر‘‘ اسی طرح کہتے ہیں چرسی اکیلا نہیں مرتا دوچار کو ساتھ لے کرمرتا ہے۔ کئی اس کے محبین اسے درویشوں کا نشہ کہہ کر اس سے رعایت برتتے ہیں۔ مگر یہ سب غلط ہے۔ ملک کے طول و عرض میں جگہ جگہ یہ دستیاب ہے اور اس کی قیمت بھی قدرے کم ہونے کی وجہ سے یہ مقبول نشہ ہے۔ کیا پنجاب کیا سندھ کیا سرحد اور کیا بلوچستان۔ پڑھے لکھے بھی اب اس کے اسیر ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں، سکولوں اور کالجوں کے بچوں میں یہ زہر پھیلایا جا رہا ہے۔
والدین پریشان ہیں کیونکہ نشہ بہرحال نشہ ہوتا ہے آگے چل کر یہی لت مزید بری صحبت اور نشے کی طرف لے جاتی ہے۔ اب خدا کرے یہ چرس تلف کی جائے ورنہ پیسوں کے پجاری چوری چھپے اس ذخیرے میں سے مناسب مقدار نکال کر اسے فروخت کر کے خوب مال بنا سکتے ہیں اور اس ذخیرے کے مالکان کو بھی قابو میں لایا جائے عوام کو بتایا جائے یہ کون کون سے شرفا ہیں جو اس دھندے میں ملوث ہیں۔
٭٭٭٭٭
سیاسی پارٹیاں جو منشور پیش کر رہی ہیں اس پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ مفتاح اسماعیل۔
ان سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل گھر کے بھیدی ہیں جو لنکا ڈھا سکتے ہیں اور ڈھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ حضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ گیس اور بجلی سستی فراہم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سب زبانی کلامی دعوے کر رہے ہیں۔ مگر کیا کریں انتخابی دعوے کرنے پر تو کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ آئین اور قانون میں بھی ایسی کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر لگے رہو منا بھائی کون کسی کو روک سکتا ہے۔ نوکریوں، گھروں اور مہنگائی ختم کرنے کے دعوے ہم کئی سالوں سے سن رہے ہیں مگر ان پر عمل درآمد ہوتا ابھی تک نہیں دیکھ پائے۔ اب ایک بار پھر تمام سیاسی جماعتیں نئے نئے انداز میں یہی پرانی شراب نئی بوتلوں میں بھر کر لائی ہیں اور اسے اپنا انقلابی منشور کہہ کر پیش کر رہی ہیں یہ سب جماعتیں اگر اتنی ہی مخلص تھیں تو اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے زیر تصرف صوبوں میں یہ انقلابی اقدامات کیوں نہ اٹھا سکیں۔ اب اچانک یہ سب انہیں کسی الہام کی طرح کیسے نازل ہو گیا ہے۔
صاف بات ہے عوام کو بہلانے کے لیے لبھانے کے لیے اب ان کے پاس اور کوئی نیا بہلاوا ہے ہی نہیں۔ یہ صرف دعوے کر کے سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کے حربے ہیں۔ ورنہ اگر ایمانداری سے کام کیا جاتا تو آج پاکستان کے سارے نہ سہی بہت سے مسائل خاص کر گیس، بجلی جیسے مسائل تو حل کئے جا سکتے تھے۔ مہنگائی پر قابو ایک ہاتھ کی مار ہے۔مگر ایسا کسی نے بھی نہیں کیا کہ بعد میں الیکشن میں کیا دعوے لے کر جائیں گیعوام کے پاس۔