ایران کی پیدا کردہ کشیدگی اور ہمارے دفاع کے تقاضے
کچھ عرصہ قبل انٹرنیشنل میگزین دی اکانومسٹ کا سرورق پوری دنیا میں زیر بحث آیا تھا جسے مختلف بین الاقوامی سیاسی و معاشی تجزیہ کاروں نے جکساپزل کی طرح ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سرورق 2024ء میں دنیا کے سیاسی حالات کے بارے پیش گوئی پر مبنی تھا۔ اس سرورق کی علامتی زبان کو حل کرتے ہوئے بہت سے ماہرین نے تجزیہ دیا کہ دی اکانومسٹ کے مطابق یورپ اور مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل چھائے رہنے کے علاوہ ایک جنگ ایشیاء میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت جب یہ ٹائٹل شائع ہوا تو افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالات کشیدہ تو تھے مگر جنگ کے امکانات نظر نہیں آ رہے تھے لیکن منگل کی رات صوبہ بلوچستان کی ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقے پنجگور کے ایک گاؤں پر ایرانی مزائل حملے نے دی اکانومسٹ کی پیشین گوئی یاد دلا دی ہے۔ ایران نے یہ قدم اٹھا کر پورے پاکستان کو غم اور غصے کا شکار کرکے رکھ دیا ہے۔ اس حملے میں دو بچیوں کی ہلاکت ہوئی ہیاور چار افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔
پاک ایران سرحد پر پاکستانی علاقے کے اندر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں بلکہ دوہزار سترہ اور دوہزار تیس میں بھی ایسا ہوچکا ہے جن میں سویلین اور فوجی شہادتیں ہوئیں۔ منگل کی رات ایران کی جانب سے فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے فوری طور پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر ایران کی جانب سے کیے گئے حملے کو اپنی فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ ایران کو تنبیہہ بھی کی گئی کہ جب پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ کمیونیکیشن کے اتنے ٹریکس موجود ہیں پھر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اور پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستانی آبادی پر راکٹ حملہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ ایسی حرکت کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا چاہیے کہ ایسا کرنا سنگین نتائج مرتب کرسکتا ہے۔ جبکہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے تسلیم کیا کہ ایران نے پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر اور انفارمیشن شیر کیے بغیر پاکستان میں حملے کے دوران ایک ’ایرانی دہشتگرد گروہ‘ کو نشانہ بنایا ہے۔
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی ’تسنیم نیوز‘ کے مطابق پاسدارانِ انقلاب نے پاکستانی حدود میں ’جیش العدل‘ نامی عسکریت پسند تنظیم کے ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ حیرت اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایران کی طرف سے پچھلے ایک طویل عرصے سے پاکستان پر اس طرح کے حملوں کا تسلسل موجود ہے اور اب ایک مرتبہ پھر ایک جنگی جرم کا ارتکاب کر کے تاویل میں صرف ایک غیرذمہ دارانہ بیان دے کر اتنے سنگین عمل کی شدت کا احساس نہ رکھنا ایک دوست ، پڑوسی اور برادر ملک کو جنگ پر مجور کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔
ادھر جمعرات کی صبح یہ خبر بھی آ گئی کہ پاکستان نے جوابی کارروائی کے طور پر فوجی کارروائی کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جمعرات کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوص ٹھکانوں کیخلاف انتہائی مربوط فوجی حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کا کوڈ نام ’مرگ بر سرمچار‘ رکھا گیا ہے۔ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کے دوران متعدد دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے ایران کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں آگاہ کرتا آیا ہے۔ پاکستان نے ان دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد کے ساتھ متعدد ڈوزیئرز بھی شیئر کیے ہیں اور کلبھوشن نیٹ ورک کا ایران میں بیٹھ کر پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا تو ساری دنیا کے علم میں ہے۔ پاکستان کے سیستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے پر ایران کے گورنر نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے حملے میں کوئی ایرانی جاں بحق نہیں ہوا۔ جبکہ امریکہ نے پنجگور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرے جبکہ چین نے دونوں ملکوں کو جنگ سے باز رہنے کا اور ہوش کے ناخن لینے کا بیان جاری کیا ہے۔
اب ایک طرف پاکستان کے حالات یہ ہیں کہ معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ، اندرونی حالات اتنے مخدوش ہیں کہ کسی وقت بھی کسی بھی طرف سے آگ بھڑک سکتی ہے اور سرحدوں کی صورتحال یہ ہے کہ پہلے بھارت اور افغانستان سے تعلقات کشیدہ تھے اب ایران سے بھی ہوچکے۔ اگر یہ سب کچھ امریکہ کے سہارے اور اشارے پر کیا جا رہا ہے تو پھر سمجھ لیا جائے کہ یہ اسی بحری بیڑے کے لارے کی طرح ہوگا جس کا مزہ ہم پہلے ایک بار چکھ چکے ہیں۔ اور اگر چین سے مدد کی امید رکھتے ہیں تو چین ہمارے لیے کبھی بھی ایران کے خلاف سٹینڈ نہیں لے گا کیونکہ اس وقت ہماری نسبت ایران کے ساتھ چین کے تعلقات زیادہ بہتر نظر آتے ہیں اور اس تمام صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور افغانستان ہماری سلامتی پر شب خون مارنے کے لیے ایڑی اور چوٹی کا زور لگا دیں گے۔
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کے تقدس کی پامالی برداشت نہیں کرسکتا لیکن موجود صورتحال میں جس قدر پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی بھی نہیں تھی۔ یہ بھی غلط نہیں کہ ایرانی راکٹ حملے کے بعد سے لیکر اب تک افواج پاکستان کے بارے بھارت اور خود پاکستان کے اندر فوج مخالف جتھوں نے مغلظ قسم کے پراپیگنڈہ کی حدیں پار کرڈالی ہیں لیکن بڑے اور حساس نوعیت کے فیصلے دشمنوں کے ردعمل میں آ کر نہیں کیے جاتے۔ پاکستان نے ایران کی انتہائی احمقانہ اور متکبرانہ حرکت کا بڑا مناسب جواب بڑے مناسب وقت پر دے دیا ہے لیکن اب حقیقی فتح اب سفارتی محاذ پر جنگ جیتنے میں ہوگی۔ پاکستان کو چاہیے کہ کسی بھی طریقے سے ایران کو سفارتی سطح پر یہ باور کرائے کہ پاکستان نہ تو عراق ہے نہ شام اور لیبیا۔ یہ دنیا کی بڑی پروفیشنل فوج رکھنے والی ایٹمی قوت ہے اس لیے واقعی اسے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ ایران سمیت پاکستان کے ہر دوست دشمن کو یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں سیاسی صورتحال جیسی بھی ہو اگر پاکستان پر آنچ آتی ہے تو ایک ایک پاکستانی سب کچھ بھول کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ بیک وقت عراق ، شام اور اب پاکستان پر راکٹ داغنے کے پیچھے کونسی حکمت پوشیدہ ہے سوائے اس کے کہ ایران کا حکمران اور مقتدر طبقہ ایرانی عوام کی توجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی سے ہٹا کر جنگوں کی طرف مبذول رکھ کر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ملک رہیں تو اقتدار بھی رہتا ہے۔
٭…٭…٭