ہم سب ایک ہیں
قوموں کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہوا کرتا ہے جن سے وہ نبرد آزما ہوتی ہیں۔ وہ قومیں جو باہمی اتفاق اور یگانگت کے جذبات سے مالا مال ہوں وہ ہر چیلنج کا جوانمردی سے سامنا کرلیتی ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کا حصول اور اس کا استحکام بھی قوم نے انہی اوصاف کا حامل ہونے کی بنا پر یقینی بنایا۔ وگرنہ قیام پاکستان کے اوائل ہی سے قوم کو عددی اعتبار سے ایک بڑے دشمن کی جارحیت سمیت جن مسائل کا سامنا تھا اْن سے نبرد آزما ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ پاکستانی قوم میں بہت قوت ہے جس کو باہمی نفاق،فرقہ واریت اور عدم برداشت کے مادوں کی بدولت کمزور کرنے کی سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ دشمن کبھی سامنے آ کر تو کبھی پیچھے رہتے ہوئے قوم میں تفرقہ بازی کی وہ آگ جلانا چاہتا ہے جس سے مضبوط سے مضبوط قوم کے قدموں میں بھی لغزش آ جاتی ہے۔ قوم کو ایسے عناصر اور ایسی سازشوں کو بھانپنا ہو گا جو اس معاشرے کو رواداری سے دور لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاشرے تبھی پنپتے ہیں جب وہ ایک دوسرے کو جینے کا حق دیتے ہیں۔ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق قوم کے ہر ہر فرد کو زندگی گزارنے کا حق دینا ہی باہمی رواداری کے فروغ کی اساس ہے۔ وطن عزیز پاکستان کا پرچم دنیا کا خوبصورت ترین پرچم ہے۔ پرچم کا ڈیزائن قوم کے عظیم مقاصد کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سبز ہلالی پرچم میں سفید حصہ دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ اس ملک میں بسنے والے مسلم اور غیر مسلم، تمام شہری مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ قائداعظم نے دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست 1947ء کی اپنی تقریر میں اقلیتوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’وہ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں اور مذہب کی بنیاد پر اْن سے کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جائے گا۔‘‘ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اقلیتیں تو درکنار، کہیں ہمارے اپنے ہم مذہب ہی اپنی عبادت گاہوںمیں عدم رواداری اور انتہا پسندی کا شکار تو نہیں ہو رہے؟خدانخواستہ کسی قوم میں تفریق اور باہمی نفاق پیدا کردیا جائے تو پھر اس سے امن، بھائی چارے، اخوت اور محبت کے پرچار کی کیونکہ توقع کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی بقا، رواداری اور باہمی اْنسیت کے جذبوں ہی میں پنہاں ہے۔ قومیں اپنی بقا کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہیں۔ کسی قوم کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی نوجوان نسل اپنی سرزمین سے اپنے نظریے کے ساتھ کس طرح سے جڑی ہوئی ہے۔ وہاں اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کس قدر پرعزم ہے۔ الحمدللہ پاکستانی قوم اور اسکے نوجوان اپنی دھرتی کی حفاظت اس سرشاری سے کرتے ہیں کہ اٹھارہ اٹھارہ بائیس بائیس سال کے نوجوان اپنا آج قوم کے کل کیلئے قربان کرتے ہوئے ایک پل نہیں لگاتے۔ پاکستان جفاکش اور پْرعزم مکینوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے باسی ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک پر کوئی کڑا وقت آتا ہے تو عوام ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند سامنے آتے ہیں اور متحد ہو کر ملک کی حفاظت اور دفاع کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر زمانہ حال تک پاکستان کا سفر مختلف چیلنجز اور مشکلات سے بھرا دکھائی دیتا ہے لیکن قابل ستائش امر یہ ہے کہ پاکستانی قوم ایک ایسی قوم کے طور پر سامنے آتی ہے جو نامساعد حالات کے باوجود آگے بڑھنا جانتی ہے۔باوجود معروضی حالات اور دشمنان پاکستان کے گٹھ جوڑ اور سازشوں کی بنا پر پاکستان کو شدت پسندی اور دہشت گردی ایسے عفریتوں کا سامنا رہا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان کے بعض علاقے ’’نو گو ایریاز‘‘ بنے ہوئے تھے لیکن افواج اور امن قائم کرنے والے اداروں کی گزشتہ ڈیڑھ دہائی کی سر توڑ کوششوں اور قربانیوں کی بدولت قوم کو آج پْرامن ماحول میسر ہے۔ پاکستان بطور ایک ریاست کے ذمہ دارانہ انداز میں آگے بڑھ رہا ہے وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ضرور ہے لیکن وہ اپنے دفاع کے حوالے سے اس سے بھی کہیں زیادہ حساس ہے۔ پاک افغان بارڈر مینجمنٹ اور پاک ایران بارڈر پر باڑ لگانے کے پیچھے بھی یہی جذبہ کارفرما ہے تاکہ خطے کے یہ تینوں ممالک دہشت گردی اور تخریب کاری سے محفوظ رہیں۔پاکستان اپنے حصے کا کام کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج قبائلی اضلاع میں امن بحال ہو چکا ہے۔ عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بڑی تعداد اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا چکی ہے۔ افواجِ پاکستان طالبان کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اس بنا پر آئے روز افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ یہ شہادتیں اپنے شہریوں کو امن اور تحفظ پہنچانے کیلئے ہیں۔ اس کے علاوہ افواج پاکستان نے بڑے پیمانے پر قبائلی اضلاع میں تعلیم و صحت کے شعبوں سمیت معاشی سرگرمیوں کیلئے مراکز تعمیر کئے ہیں۔ بہترین سپورٹس سٹیڈیم اور کیڈٹ کالجز تعمیر کئے گئے ہیں۔ سڑکوں کے جال بچھا دیئے گئے ہیںاور عوام الناس کی بہت کم وقت میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔