• news

پاک ایران تعلقات میں کشیدگی

پاکستان اور ایران دو برادر ہمسایہ ممالک ہیں- جن کے تعلقات روایتی طور پر خوشگوار اور دوستانہ رہے ہیں- ماضی میں دونوں برادر ملک مشکل گھڑی میں عالمی فورموں پر ایک دوسرے سے پر خلوص اور پر جوش تعاون کرتے رہے ہیں - گزشتہ تین روز سے پاک ایران تعلقات تشویشناک حد تک کشیدہ ہو گئے ہیں- معمول کے مطابق تعلقات میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب ایران نے غیر متوقع طور پر پاکستان کی سرحد کے اندر پنجگور کے مقام پر میزائل داغے جس کے نتیجے میں دو بچے شہید اور دو زخمی ہو گئے- پاکستان نے اس افسوسناک واقعے پر شدید سفارتی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایران میں پاکستان کے سفیر کو واپس بلا لیا اور ایران کے سفیر کو پاکستان واپس آنے سے روک دیا جو ایران میں موجود تھے- وزارت خارجہ نے ایران کے قونصل جنرل کو طلب کرکے پاکستان کی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے حملے کی مذمت کی اور اسے پاکستان کی علاقائی خودمختاری کیخلاف قرار دیا- پاکستان نے انتباہ کیا کہ پاکستان ایران کے حملے کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے- 
پاکستان کے سفارتی حلقوں کا خیال تھا کہ ایران اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرے گا- ایران کے وزیر خارجہ کا وضاحتی بیان معذرت کی بجائے ایک حد تک جارحانہ تھا - ایران نے پاکستان کے علاوہ شام اور عراق کے علاقوں پر بھی میزائل حملے کیے اور موقف اختیار کیا کہ ایران نے تینوں ملکوں کے اندر جیش العدل کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں- ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران پاکستان کی علاقائی خودمختاری کا احترام کرتا ہے البتہ وہ ایران کی سلامتی اور خودمختاری پر بھی سمجھوتہ نہیں کرے گا- پاکستان نے جب محسوس کیا کہ ایران سفارتی اقدامات کو نظر انداز کر رہا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو پاکستان جوابی کارروائی پر مجبور ہوا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاکستان نے ایران کے اندر بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ سے منسلک دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں جن میں خود کش ڈرون راکٹ میزائل اور گولہ بارود استعمال کیا گیا - ایران کے وزیر داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں خواتین اور بچوں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے ہیں- پاکستان کے لیے جوابی حملہ اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ دنیا کو یہ پیغام پہنچ جائے کہ پاکستان اپنے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتا ہے -اگر ایران اپنی غلطی کا ادراک کر لیتا تو پاکستان کبھی جوابی کارروائی نہ کرتا- 
زمینی حقائق یہ ہیں کہ دہشت گرد اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لیے پاکستان اور ایران کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں- گزشتہ دو تین سالوں میں دہشت گردوں نے پاکستان اور ایران دونوں برادر ملکوں کے شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے- پاکستان اور ایران دونوں مل کر ہی دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں-
 ماضی میں کئی مواقع پر پاکستان اور ایران کی سیکیورٹی فورسز نے اشتراک کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں جو نتیجہ خیز ثابت ہوئیں - امریکہ نے پاکستان کے علاقے میں ایرانی حملے کی مذمت کی ہے جبکہ چین نے معتدل اور متوازن سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان اور ایران دونوں کو مذاکرات کرکے کشیدگی ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے- اسرائیل نے فلسطین کے بے گناہ شہریوں پر المناک اور شرمناک مسلسل حملے کر کے مشرق وسطیٰ کے امن اور استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے- ایران قدرتی طور پر دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے- پاکستان کی نگران حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے درست اقدام کیا ہے- پاکستان اور ایران دونوں کشیدگی اور محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے-دونوں برادر ملکوں کو اپنے سفارتی چینل اوپن رکھنے چاہئیں اور تمام معاملات بقائے باہمی اور دو طرفہ پالیسی کے اصولوں پر حل کرنے چاہئیں - پاکستان اور ایران کے مشترکہ دشمن دونوں ہمسایوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے کی کوشش کریں گے جس کا دونوں مل کر مقابلہ کریں-
 پاکستان اندرونی طور پر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے- سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کے دشمن فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں- پاکستان کی پہلی ترجیح اندرونی سیاسی اور معاشی استحکام ہونی چاہیے جو قومی اتفاق اور اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے- اندرونی استحکام ہی ہماری آزادی اور سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے- ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی ریاست اندرونی طور پر کمزور ہو جاتی ہے تو بیرونی طاقتیں اسے آزادی سے ہی محروم کر دیتی ہیں- اللہ کرے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اور سیاسی مذہبی جماعتیں ہوش کے ناخن لیں اور ذاتی گروہی مفادات کی خاطر 25 کروڑ عوام کی ایٹمی ریاست کے مستقبل کو داؤ پر نہ لگائیں-  پاکستان اور ایران دو برادر ہمسایہ ملک ہیں- ان کو بقائے باہمی اور سلامتی کے اصولوں پر کار بند رہنا چاہیے اور اپنے اختلافات مذاکرات اور مفاہمت سے حل کرنا چاہئیں -اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، روس، یورپی یونین، ترکیہ اور دیگر ممالک نے پاک ایران کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارت کاری سے مسائل حل کرنے پر زور دیا ہے-

ای پیپر-دی نیشن